تحریر : میر افسر امان ٥ فروری وہ دن ہے جس دن کو پاکستان نے کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کے ساتھ یکجہتی کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے۔اس دن کو منانے کی تجویز مجاہد ملت قاضی حسین احمد سابق سینیٹر اورامیر جماعت اسلامی نے اس وقت کی حکومت کے سامنے رکھی تھی جسے منظور کر لیا گیا تھا ان دن پاکستان میں عام چھٹی منائی جاتی ہے۔ہر سال اس دن کو پاکستان اورتمام سیاسی اور مذہبی پارٹیاں مناتی آ رہی ہیں۔اس دن کی اہمیت کے سبب اب تو دنیا میںجہاں جہاں کشمیری آباد ہیں اس کومناتے ہیں۔ قاضی حسین احمد بھی کیا خوب آدمی تھے ۔ دنیا میں جہاں کہیں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے وہاں قاضی کی آواز اس ظلم کے خلاف بولتی تھی۔ زبان کیا قاضی صاحب بنفس نفیس خود وہاں پہنچ جاتے تھے۔ کشمیری قاضی صاحب کو اپنا سمجھتے تھے۔ سربوں نے جب بوسنیا کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے تو قاضی صاحب وہاں توپوں کی گھن گرج کے درمیان امداد لے کر خود پہنچے تھے۔فلسطینیوں کے غموں میں وہ ہمیشہ شامل رہے۔ روسی مظالم کی رُوداد سنانے جب چیچنیا کے صدرپاکستان امداد کے لیے آئے تو قاضی نے انہیں پاکستان میں جگہ جگہ روشناس کرایا اور امداد اکٹھی کر کے دی۔
برما کے اراکین کے لیے قاضی کا دل ڈھرکتا تھا۔بھارتی مسلمانوں کے حق میں قاضی صاحب کی آواز ہمیشہ گونجتی رہتی تھی۔ افغانستان کے جہاد میں تو قاضی صاحب کے نام کے بغیر کہانی ہی مکمل نہیں ہوتی ۔وہ بذاتِ خود اس جہاد میں شریک رہے۔ افغانستان کے شمالی حصے کے فارسی بولنے والے برہان الدین ربانی پشاور میں ان کے مہمان رہے۔ وادی پنچشیر کے کمانڈر احمد شاہ مسعود قاضی صاحب کی بصیرت کے کائل تھے۔ گلبدین حکمت یار قاضی صاحب کے مشوروں پر چلتے تھے۔ اگر افغانستان کے جہاد سے قاضی صاحب کے نا م کو نکال دیا جائے تو شاید وہ نامکمل کہلائے ۔ کشمیری تو قاضی صاحب کے نام سے عقیدت رکھتے ہیں۔ ان سارے مظالم کے خلاف پاکستان میں مسلمانوں سے ہمدردی کے حوالے سے اگر سید ابو اعلیٰ مودودی کی بات نہ کی جائے تو تاریخ کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ مودودی نے رسولۖ اللہ کی اس بیان کرد ہ ابدی حقیقت کہ مسلمانوں کی مثال ایک عمارت کی ہے اگر اس کی ایک اینٹ کو تکلیف پہنچے تو ساری عمارت کو تکلیف پہنچتی ہے۔ رسولۖ اللہ کے اسی فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے مودودی نے امت کا تصورعام کیا۔ اس پر ایک پوری ٹیم تیار کی اور اسی ٹیم کے مجاہد قاضی حسین احمد ایک فرد تھے۔
٥فروری یوم یکجہتی کشمیر کے موقعہ پر ہم نے اس عظیم مجاہد کے تذکرہ اس لیے ذرا تفصیل سے کیا ہے کہ کشمیریوں کو پہلے سے زیادہ پاکستان کی اور امت مسلمہ کی مدد کی ضرورت ہے۔کشمیر تحریکِ پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ سالارِ قافلہ تحریکِ پاکستان قائدِ محترم محمد علی جناح کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سے منسوب کیا تھا۔ صاحبو! تاریخی لوگوں کی باتیں تاریخی ہوتیں ہیں۔ اسی لیے پاکستانی قوم نے قائد کے فرمان کو پلے سے باندھ رکھا ہے اور ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھا ہے۔ جب کوئی جسم شہ رگ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تو پاکستان کشمیر کے بغیر کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔کشمیر کے سارے دریا پاکستان کی سمت بہتے ہیں۔ ان پانیوں کے وجہ سے پورے پاکستان کے کھیت کھلیان سر سبز و شاداب ہیں۔پاکستان کے ڈیموں کا پانی کشمیر سے آتا ہے جس سے بجلی بنتی ہے ۔پاکستان کی نہروں میں پانی کشمیر کے دریائوں سے بہہ کر آتا ہے۔ آج پاکستان کا ازلی دشمن ہندوستان اور اس کا دہشت گرد وزیر اعظم مودی پاکستان کے پانی بند کرنے کی اعلانیہ تدبیریں کر رہا ہے۔
Dam
پاکستان کے دریائوں پر غیر قانونی بند اور ڈیم بنا کر پاکستان کا پانی روک رہا ہے۔پاکستان کو بنجر بنانے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ہندوستان کے سارے لیڈر پاکستان توڑنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ عملاً وہ ہمارا ایک بازو کوہم سے الگ کر کے بنگلہ دیش بنا چکے ہیں۔ باقی پاکستان کو توڑنے کے منصوبے بنا رہا ہے افغانستا ن میں اپنے قائم کردہ دہشت گردی کے اڈوں میں دہشت گردی کی ٹریننگ دے کرپاکستان میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔دہشت گرد مودی اپنے یوم جمہوریہ پر کہہ چکا ہے کہ گلگت اور بلوچستان سے مجھے فون کال آرہی ہیں کہ پاکستان سے علیحدگی کے لیے ہماری مدد کی جائے۔ پاکستان کی اقتصادی گیم چینجر، چین پاک اقتصادی راہداری کو ثبوتاژ کرنے کی غرض سے فنڈ مختص کر چکا ہے۔ کلبھوشن یادیو اور اس کی ٹیم کے درجنوں ایجنٹوں کو ہماری ایجنسیاں گرفتار کرچکی ہیں۔ کلبھوشن یادیو نے اپنے اعترافی ویڈیو بیان میں کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی اور مقامی ہندوستانی ایجنٹوں کو فنڈنگ کرنے کا اعتراف کر چکا ہے۔صاحبو! ان حالات میں کشمیریوں نے تحریک پاکستان کو زندہ کیا ہوا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ملنے کے لیے کشمیری اپنا آج پاکستان کے کل کے لیے قربان کر رہے ہیں۔ہر روز پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں۔ہندوستان کی آٹھ لاکھ فوج کشمیریوں کی جزبہ آزادی کو نہیں دبا سکی ہے۔
برہان مظفر وانی کی شہادت کے وقت سے تحریک آزادی میں نیا جزبہ شامل ہوا ہے۔ سیکڑوں کشمیری قابض فوج کی فائرنگ سے شہید ہو چکے ہیں۔ قابض فوج کی بیلٹ گنوں اور آنسو گیس کے شیلوں کے سامنے کشمیری ڈٹے ہوئے ہیں۔ سیکڑوں کشمیریوں کو بیلٹ گنوں کی فائرنگ سے اندھا کر دیا ہے۔ہزاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گھر گھر کی تلاشی کے دوران عزت مآب کشمیری خواتین کی بے توقیری کی جا رہی ہے۔کشمیری تو تحریک پاکستان جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ کیا ہمارے مقتدر حلقوں نے بھی اس کی تیاری کی ہے۔ کیا پارلیمنٹ کی قائم کردہ کشمیر کمیٹی نے کشمیر کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کیا ہے اس کا جواب نفی میں ہے۔ اسی بنا پرکشمیر میں جاری تحریک ِپاکستان کے قائد جناب سید علی گیلانی صاحب نے حکومت پاکستان سے کشمیر کمیٹی کے سربراہ کو تبدیل کرنے کی درخواست کی ہے۔ خود حکومت پاکستان نے کشمیر کاز کے لیے پارلیمنٹ کے کچھ حضرات کو بیرون ملک بھیجا تھا۔ اُن میں سے بھی اکثر کی رپورٹ تسلی بخش نہیں تھی۔ کشمیر کے مظالم اور اقوام متحدہ کی کشمیر میں رائے شماری کی قراردادوں کے متعلق کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے کے بجائے الٹا کچھ حکومتی ممبران نے بیرون ملک کے کچھ کے مخالف عناصر کی ترجمانی کرتے ہوئے پاکستان کے دہشت گردی میںملوث ہونے کی نوید سنا دی۔
صاحبو! کشمیر کے معاملے میں پاکستان کا کیس بہت مضبوط ہے ۔ کشمیر تنازہ کا پاکستان ایک فریق ہے ہندوستان کا وزیر اعظم نہرو خوداقوام متحدہ میں جنگ بندی کی درخواست لے کر گیا تھا۔ اُ س نے دنیا کے سامنے کشمیریوں، پاکستان اور قوام متحدہ سے کشمیر میں حق خوداداریت کا وعدہ کیا تھا۔ اقوام متحدہ نے اپنے مبصرین بھی کشمیر میں تعینات کیے تھے۔ کشمیر میں رائے شماری کے لیے اقوام متحدہ کئی قرادادیں بھی منظور کرچکی ہے۔غدارِ پاکستان ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ہندوستان کو کشمیر کی کنٹرول لین پر کانٹوں کی باڑ لگانے کی اجازت دے کر کشمیریوں سے غداری کی تھی۔اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر کشمیریوں کی مرضی کے بغیر تیسرے حل کی باتیں کر کے تحریک آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا کھونپا۔ ہندوستان کے ساتھ ہماری حکومت کو معذرتانہ رویہ تبدیل کر کے جارحانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ پاکستان میں مداخلت کا کیس اقوام متحدہ میں جارحانہ طریقہ سے پیش کرنا چاہیے۔ ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی والے پاکستان کوہندوستان پر واضع کر دینا چاہیے کہ اگر پاکستان نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں۔ بنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ یہی ٥ فروری کا پیغام ہے۔ اس پالیسی کو اختیار کر کے پاکستان کشمیریوں کے دل جیت سکتا ہے۔جو ایک نہ ایک دن ضرور آزاد ہونگے۔ انشاء اللہ۔