تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں جب کہ انسانی قلوب سخت اور کٹڑ بن جاتے ہیں ، شاعری ان کو رقیق اور نرم کرتی ہے اور ایک ایسے عالم تخیل کی سیر کراتی ہے جہاں تھوڑی دیر کے لیے ہمیں مشاہدات کی بے رحم حکومت سے نجات مل جاتی ہے۔ گویا اس اعتبار سے شاعری ہمیں ایک جہان دگر کی سیر کراتی ہے۔‘‘ گویا شاعری انسانی زندگی کے روزمرہ میں بے رحم مشاہدات و تجربات سے نجات دلا کر قاری کو ایک جہان دگر کی سیر کو لے جاتی ہے۔ جہاں وہ اپنے آپ کو قدرے سکون کی حالت میں محسوس کرتا ہے۔لیکن مولانا شبلی نعمانی کے مطابق اس میں سارا کمال شاعر کے تخیل کا ٹھیرتا ہے، یہ شاعر کا تخیل ہی ہے جو قاری کو اپنے ساتھ لے کر چل نکلتا ہے۔ لیکن اگر شعر تخیل سے کلیتاً پاک صاف ہو تو… یہ سوال ایک الگ سے گفتگو کا متقاضی ہے ۔بات تخیل پر آن پہنچی تو آئن سٹائن کا حوالہ دیے بغیر آگے بڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ تخیل کے حوالہ سے آئین سٹائن کے الفاظ دیکھیے: “Knowledge is limited, Imagination encircles the World.” ہماری مادی دنیا میں شاعری کی مخالفت بھی بے حد ہوئی۔ افلاطون سے اب تک لوگ اپنے کام سے لگے ہوئے ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ یہ کام مغرب میں زیادہ ہوا اور مشرق میں کم ۔ کیوں کہ مغربی معاشرہ کی بنیاد ہی مادیت پر استوار ہے۔ اس کے مقابلے میں مشرق میں معاشرتی بنیادیں روحانیت پر تھیں۔ اسی لیے مشرق میں ہمیں شاعری کے خلاف باقاعدہ محاذ بنا کر چلنے والے کردار خال خال ہی نظر آتے۔
ہماری اس بات پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب تو مشرق و مغرب مادیت اور روحانیت کے معاملات میں ایک ہی صف میں کھڑے ہیں لیکن ہم کہنا چاہتے ہیں کہ اس گئے گزرے زمانے میں بھی روحانیت اپنے بچے کھچے خد و خال کے ساتھ ہمارے ہاں باقی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دینا ضروری ہے کہ مغرب میں جہاں شروع سے شاعری کو غیر ضروری بلکہ برا گردانا گیا وہیں اس کے حق میں آواز بلند کرنے والے دیوانے بھی کم نہ تھے۔ یوں برابر کی چوٹ پڑتی رہی۔ مشرق و مغرب میں ایسے رویوں کی تشکیل کے بنیادی محرکات مادیت اور روحانیت کے علاوہ کیا کیا تھے، سرِ دست ہم اس سے گریز اختیار کرتے ہوئے اپنے موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔ کالرج کے نزدیک شاعر تخیل کی مدد سے اپنے خیالات کو بیان کرتا ہے، ان کی وضاحت کرتا ہے۔ اس کے نزدیک شاعری فکر اور بیان کو مثالی بنا کر پیش کرنے کا نام ہے۔ شاعری انسانی علم، آرزؤں، جذبات اور زبان کی مہکار کا دوسرا نام ہے۔
شاعری کی تاریخ پر بطور ایک فن بات کی جائے تو قبل از تاریخ بھی اس کی موجودگی کے شواہد ملتے ہیں۔ جب انسان نے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا۔کہا جاتا ہے کہ ابتدائی زمانوں میں شاعری خوش الحانی سے زبانی پڑھی اور گائی جاتی تھی۔ شاعری… تاریخ ، کہانی بالخصوص رزمیہ کہانی، گھرانوں کے نسب ناموں اور قانون وغیرہ کو یاد رکھنے کے لیے کام میں لائی جاتی تھی۔شاعری اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ۔ پھر مختلف مذاہب میں موسیقی اور شاعری مختلف صورتوں میں کام میں آتے رہے۔ دعائیہ مناجات اس سلسلے میں بطور مثال پیش کی جا سکتی ہیں۔ ازمنہ قدیم کی اس نوعیت کی نظمیں تاحال باقی ہیں۔ ان نظموں سے اُس وقت کے لوگوں کی ثقافت، تاریخ، سیاست، جنگوں اور اسطور کی بابت خاطر خواہ علم حاصل ہوتا ہے۔
Religion
مذہب اپنی کسی بھی حالت میں رہا ہو انسان کے لیے ہمیشہ اہم اور بنیادی رہا ہے۔ اور جب مذہب اور شاعری کے درمیان ایک رشتہ قائم ہوا تو مذہب منظوم حالت میں سینہ بہ سینہ آگے منتقل ہوتا رہا۔اسی طرح نسب نامے منظوم حالتوں میں سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں کو ملے۔ ان نسب ناموں میں محض فلاں بن فلاں تک ہی بات نہیں ہوتی تھی بلکہ فلاں فلاں کے کارہائے نمایاں بھی نہایت فخر سے پیش کیے جاتے تھے۔ اپنے بزرگوں کے شجاعت نامے پیش کیے جاتے تھے۔دعائیں اور کہانیاں ان سب پر مستزاد ہیں۔ یونانی اساطیر اور ہندوؤں کے وید قبل مسیح کی باتیں ہیں۔دونوں کے زمانہ حال تک پہنچنے میں شاعری کا کلیدی کردار ہے۔ سمیری ادب کی شاہ کار نظم داستان گلگامش تاحال زندہ نظموں میں سب سے قدیم خیال کی جاتی ہے۔ یہ ایک رزمیہ ہے۔ گلگامش شہر اروک سے شجر حیات کی تلاش میں نکلا اور ایک مدت تک خطرات و مصائب کا سامنا کرنے کے بعد اسے پانے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن پانی سے ایک سانپ نکلا اور شجر حیات چھین کر بھاگ لیا۔ اسی رزمیہ میں سیلاب عظیم کا واقعہ بھی درج ہے۔ علی عباس جلال پوری نے عہد نامئہ قدیم میں درج طوفانِ نوح کو داستان گلگامش سے ماخوذ بتایا ہے۔ داستان گلگامش کے بعد قدیم ترین نظمیں سنسکرت میں لکھی جانے والی رامائن اور مہابھارت تصور کی جاتی ہیں۔ مہابھارت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ دنیا کی دو طویل ترین نظموں میں سے ایک ہے۔ اگر یادداشت درست ساتھ دے رہی ہے تو دوسری طویل ترین نظم تبت کے بادشاہ جیسر کا رزمیہ ہے۔
پھر جب انسان نے لکھنا سیکھا تو نسل درنسل باقی رہ جانے والے نسب نامے، شجاعت نامے، کہانیاں، دعائیں وغیرہ منظوم حالت میں تحریر کر لیے گئے، کہیں مٹی کی تختیوں پر تو کہیں پتھروں پر۔ بعض قدیم مذاہب جو تاحال کسی نہ کسی صورت میں باقی ہیں، ان میں اس قبیل کی نظمیں اب تک اجتماعی اور انفرادی طور پر پڑھی جاتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر شاعری ہی کیوں؟ تو اس کے جواب کے لیے ہمیں ایک ذرا خود تجربہ کرنا ہو گا کہ ایک جملہ جلدی یاد ہوتا ہے کہ ایک مصرعہ۔ یقینا آپ اس تجربہ سے گزر چکنے کے بعد یہی جواب دیں گے کہ مصرعہ اپنے آہنگ کے باعث جلدی ذہن نشیں ہو جاتا ہے اور تا دیر ذہن پر نقش رہتا ہے۔ اور اگر کہیں بھول بھی جائے تو اس میں موجود ایک آدھ لفظ اس کی بازیافت کے لیے کافی ٹھیرتا ہے۔ لیکن زمانہ قبل از تاریخ میں تو نظم اور نثر کی تفریق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ابھی انسان نے ٹھیک سے کیا، لکھنا پڑھنا ہی نہیں سیکھا تھا۔ تو اس کے جواب میں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ شاعری انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔
شاید انسان نے جب پہلی بار اپنی زبان کھولی ہو تو اس کے منہ سے مصرعے ہی نکلے ہوں۔ یوں شاعری نے چیزوں کو یاد رکھنے اور ان کی ترسیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔یہاں ہمارے نثر نگار دوست خفا بھی ہو سکتے ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ حالات و واقعات سے یہی محسوس ہوتا ہے۔یوں بھی ہماری یہ تحریر محض سنی سنائی باتوں اور ہمارے محدود مطالعے پر مشتمل ہے۔ ہم محقق نہیں کہ کوئی حتمی رائے دے سکیں۔ یہ تو بس جناب غفور شاہ قاسم کی پچھلے دنوں عنایت کردہ کتاب ’’تعبیر حرف‘‘ میں ایک مضمون ’’اکیسویں صدی میں شاعری کا جواز‘‘ پڑھتے پڑھتے آج کا کالم لکھنے بیٹھے تو یہاں تک آن پہنچے۔ چلتے چلتے خبردار کرتے چلیں کہ شیلے نے شاعر کو معاشرہ کا غیر تسلیم شدہ قانون ساز بھی قرار دے رکھا ہے۔ اور بنظر انصاف دیکھا جائے تو یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔