تحریر : صوفیہ کنول کسی بھی انسان کا اخلاق اس کی شخصیت کا آئنہ دار ہوتا ہے۔ انسان کے خلاق سے اس کے نیک یا بد ہونے کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اخلاق کا تعلق زبان سے ہوتا ہے۔اور بدن کے تمام اعضاء زبان کے سامنے عاجزی کرتے ہیں اور کہتے ہیںکہ ہمارے بارے میں اللہ سے ڈر۔اس لئے کہ ہمارا معاملہ تیرے ساتھ ہے۔آگر توں سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے۔اگر توں کجی ہوئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیںگے۔ بد اخلاقی انسان کو عرش سے فرش پر گرا دیتی ہے۔ بد اخلاق اور سپاٹ زبان انسان کو کوئی بھی دوست رکھنا پسند نہیں کرتا۔ اور خوش اخلاق انسان فرش نشیں سے تخت نشیں بھی بن جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بد اخلاقی بہت سے مسائل کی وجہ بنتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔رشتہ داروں اور گھروں میں ہونے والی ہر چھوٹی بڑی لڑائیوں میں سب سے زیادہ عمل دخل بھی زبان کی بداخلاقی کا ہی ہے۔
اگر ہم کسی میں کوئی بُری عادت دیکھتے ہیں تو اسے اسی کے سامنے غصیلے اور طنزیہ انداز میں پیش کرتے ہیں تو یہ بات یقینابحث طویل اور لڑائی جھگڑے تک پہنچ جائے گی۔اگر ہم اسی بات کو پیار و محبت،پُر اخلاق اور دانشمندانہ انداز میں پیش کریںتو نہ صرف ہماری بات پایہ تکمیل کو پہنچے گی بلکہ ہمارے حسن اخلاق سے اُس کے دل میں ہماری عزت بھی بڑھے گی۔ہمارے مغربی معاشرے میں جہاں اخلاق سے زیادہ قانون کا سہارا لیا جاتا ہے۔اگر کسی وقت قانون کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے تو معاشرہ افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں وہ معاشرہ جس کی بنیادیں اچھے اخلاق پر ہوں وہاں قانون کے بغیر بھی لوگ برائیوں سے دور رہتے ہیں۔ہم چاہے جتنی مرضی نمازیں پڑھیں،روزے رکھیں،خیرات کریں اگر ہمارا اخلاق اچھا نہیں تو ہماری کوئی بھی عبادت قابل قبول نہیں۔اسی لئے قرآن کریم میں ارشاد ہے۔”تم اللہ کی بندگی کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراو،ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابتداروں، یتیموں، مسکینوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ۔ رشتہ داروں،پڑوسیوں، مسافروں سے اور ان غلاموں سے جو تمہارے قبضے میں ہوں احسان یعنی حسن اخلاق کا معاملہ رکھو”۔
Muhammad SAW
تاریخ میں ہمیں بہت سے ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں جہاں کافرین ہمارے آقا صل اللہ علیہ وسلم،خلیفہ راشدین اور صحابہ اکرام کے اخلاق سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتے تھے۔ مگر آج کے دور میں ہمارا اخلاق کیسا ہے؟ جو ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے تنگ ہے۔اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کو بہت عمدہ سمجھتے ہیں۔ اچھے خاصے مہذب اور بااخلاق لوگ بھی ہمسائیوں،مسافروں اور کسی اجنبی سے واسطہ پڑنے پر تہذیب و تمدن کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ والدین جیسی عظیم ہستی کی تربیت کو پامال کرتے ہیں۔ انسان کا اپنے والدین،اولاد اور رشتہ داروں کے علاوہ سب سے زیادہ تعلق و واسطہ اپنے ہمسائیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔اس لئے اسلام نے ہمسائیوں کے ساتھ حسن اخلاق کا حکم دیا ہے۔ہمارے نبی اکرم فرما تے ہیں” اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔
انسان اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل اور زبان مسلمان نہ ہو۔اور کوئی انسان اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتا جب تک اس کا ہمسایہ اس کی زبان اور شر سے محفوظ نہ ہو”۔ حسن اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے۔کہ معاشرہ میں اگر ایک بھوکا ہے تو دوسرا اپنے کھانے میں اسے بھی شریک کرے۔اگر ایک بیمار ہے تو دوسرا اس کی عیادت وتمارداری کرے۔اگر ایک کسی آفت و مصیبت میں گرفتار ہو تو دوسرا اسکا شریک و ہمدرد بنے۔کوئی انسان اپنے کسی بھی قول و فعل سے کسی کو بھی ایذا نہ پہنچائے۔ کوئی ایسی گفتگو نہ کرے جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔
Helping
اس اخلاقی نظام کے ساتھ انسان کی ساری آبادی باہمی اخوت و محبت کے مظبوط بندھن میں بندھ کر اتحاد و یکجہتی کا مظہر بن جائے۔ حسن اخلاق انسان کی شخصیت کا نکھار ہے۔انسانیت کا خیال رکھنا اور ہر ادنیٰ و اعلیٰ کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا جہاں ہمارے پیارے نبیۖ کی سیرت مبارکہ ہے وہاں ایک ایماندار شخص کی پہچان بھی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے والدین اور ہر ایک کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین