تحریر : شیخ خالد ذاہد ہم بہت دیر تک یا مسلسل اسے دیکھ نہیں سکتے تھے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی تاب نہیں لاسکتے تھے یا پھر اسکی ہیبت سے خوفزدہ تھے۔ اسکی بہت وسیع و عریض وجہ یہ تھی کہ پہاڑوں پر سفر کر رہے تھے، اونچائی اور اترائی دونوں تواتر سے راستے میں آرہی تھیں۔ کبھی گاڑی سطح زمین سے بہت اوپر چلی جاتی اور کبھی نیچائی کا سفر شروع ہوجاتا بلکل زندگی کے سفر جیسا، مگر وہ اپنے ہونے کا بھر پور احساس دلاتا ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا تھا وہ بہت شور کر رہا تھا معلوم نہیں وہ اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا یا پھر اپنے گم ہوجانے کے خوف سے دہاڑ رہا تھا۔ پہاڑ ہی پہاڑ اور ان میں بہتا دریائے نیلم۔ جیسے قوی ہیکل انسانون میں ان کے چھوٹے چھوٹے معصوم سے شور مچاتے بچے۔
دسمبر کے مہینے میں پہاڑی علاقوں میں سردی بھرپور انداز میں براجمان ہوتی ہے مگر اب کی ابھی تک سردی نے قلفی جمانا شروع نہیں کیا تھا۔ سورج اس سردی کے زعم میں جلدی جلدی غروب ہونے جا رہا تھا دوسری طرف نیلے گگن میں بادبان نما کشتیوں کی طرح بادل کے ٹکڑے رہی سہی دھوپ جو کہ تمازت سے عاری تھی اور فقط روشنی کیلئے درکار تھی اسے مدہم کئے دیتے تھے، اندھیرے کا خوف بڑھائے جاتے تھے اور ہمارے اہل خانہ پہلے راستوں کی ناہمواری ، پیچ و خم سے خوفزدہ سہمے بیٹھے تھے۔ دریائے نیل کے کنارے (جہاں سے نیچے اتر کر دریا کے قریب جایا جاتا ہے) پتھر ہی پتھر ہیں اور ان پتھروں پر چار پائیاں لگائی گئی ہیں، ہم ایسی جگہ پر رکے تھے جہاں دریائے نیلم کے اوپر سے ایک پل آذاد کشمیر لے جاتا ہے، وقت کی قلت آڑے آئی اور ہمیں اس پل کو پار کرنے سے باز رکھا، ہم نیلم کے دوسرے کنارے کشمیری آب و ہوا سے محروم رہے۔ نیلم کا پانی پہاڑوں پر پگھلنے والی برف ہوتی ہے اور دھوپ کی شدت نا ہونے کی وجہ سے اس کی ٹھنڈک میں کمی نہیں آتی۔ اگر آپ اس میں پاؤں یا ہاتھ ڈال رکھیں تو کچھ دیر کے بعد ہی آپ کو “سن” ہوتا محسوس ہوگا اور شائد نیلا بھی پڑ جائے۔ اس کی گہرائی اور تیزی دونوں بہت خطرناک ہیں، وہاں کے مقامی لوگوں نے دریا سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرنے سے باز رکھا۔
ہم بھی ان محبِ وطن پاکستانیوں میں سے ایک ہیں جو پاکستان کی سرحدیں عبور کرنے سے ابتک قاصر ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جیب نے “اتنااضافی بوجھ” اٹھانے کی زحمت نہیں کی اور اس وجہ کی آڑ لے کر ہم یہ بھی لکھتے چلیں کہ پاکستان سے محبت اتنی ہے کہ پہلے پاکستان کی خوبصورتی سے محظوظ و لطف اندوز ہوجائیں اور اہلِ خانہ کے دل میں بھی پاکستان سے حقیقی محبت کا بیج بویا جائے پھر سرحدیں عبور کرنے کا سوچینگے۔ ہم ذکر کر رہے تھے دریائے نیلم کا جو کسی نیلی سفید لکیر کی مانند ہمارے دائیں جانب مسلسل چل رہا تھا۔ ہم میدانی علاقوں میں رہنے والے پہاڑوں کا رعب و دبدبا جھیلنے سے قاصر ہیں۔ ہم نے ان پہاڑی لوگوں کا خوب مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ ہم اتنی تیزی اور روانی سے اپنے میدانی علاقوں اور ہموار سڑکوں پر نہیں چل سکتے جتنا کہ یہ لوگ (ہر عمر کے) پہاڑوں کی اونچائی نچائی سے بے نیاز بھاگے دوڑے پھرتے ہیں۔نمازی مسجدوں کی جانب اسی روانی سے پیش قدمی کرتے ہیں، یہاں اسکولوں کی بھی اتنی ہی بہتات ہیں جتنی کے پاکستان کےدوسرے شہروں میں، یہاں کالجز بھی پہاڑوں کے دامن میں واقع ہیں۔ توانائی سے بھرپور زندگی کی خوبصورتی ان خوبصورت اور پر عزم لوگوں کی زندگی میں شامل ہے یہاں ماحولیاتی آلودگی کا پہنچنا مشکل ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ لوگ سفر کیلئے گدھے گھوڑے یا خچر استعمال کرتے ہیں ان کے پاس بھی ہر برانڈ کا نیا ماڈل ہے جو کہ یہ بطور کاروبار استعمال کرتے ہیں۔ یہ گاڑیاں جتنی کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کرتی ہیں اس سے کہیں گنا درخت آکسیجن خارج کرتے ہیں۔
Lying
میرا تعلق جھوٹ اور فریب سے لبریز دنیا سے ہے مجھے نہیں معلوم کہ یہ پہاڑی لوگ ان خصوصیات کے حامل ہیں یا نہیں مگر ان پر بھروسہ کرنا وقت کی ضرورت تھا۔ جس نے جیسا کہا ہم نے من و عن مان لیا۔ ان لوگوں کی باتوں میں ان کے لباس کی سی سادگی تھی اور کوئی بھی بہت تیڑی میڑی باتیں نہیں کر رہا تھا۔ کسی کو سیاست کا شوق ہوگا بھی تو اس کو ہم پر ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ہاں میں یہ ضرور تحریر کرنا چاہونگا کہ نتھیا گلی میں سیر کرتے ہوئے وہاں ایک “بابا” سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان صاحب کا ذکر آیا تو ان بابا جی خوشی دیدنی تھی وہ لہک لہک کر خان صاحب کی تعریفوں کے پل باندھے جا رہے تھے (گوکہ ہم ان پلوں کی مدد سے ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ نہیں جاسکتے تھے) ان بابا جی کا کہنا تھا خان صاحب یہاں آتے ہیں اور بغیر کسی حفاظتی حصار کہ گھومتے پھرتے ہیں جنگل میں نکل جاتے ہیں کبھی ہائکنگ کرتے ہیں اور ہم سب سے بہت اچھی طرح ملتے ہیں۔ سیاسی لوگوں سے ہمارا کوئی دور دور کا بھی واسطہ نہیں رہا اس لئے ہمیں نہیں معلوم کہ یہ لوگ عام آدمیوں سے ملتے بھی ہیں۔ ہمیں تو یہ پتہ ہے کہ اگر ان “معززین” کو کسی معصوم غریب کے بچے سے ہاتھ بھی ملانا ہوتا ہے تو اس کا ہاتھ اسطرح صاف کروایا جاتا ہے کہ باقی جسم سے وہ ہاتھ مختلف نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ خیر ہم کوئی سیاسی مضمون لکھنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
زندگی ان پہاڑوں میں بھی رواں دواں ہے، حوصلے ان پہاڑوں میں رہنے والوں کے بھی جواں ہیں، یہ سینہ سپر ٹھنڈی اور تند ہواؤں کو بھی جھیلتے ہیں یہ ہمارے لئے آپکے لئے ایسے مشکل حالات میں بھی زندگی کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا جہان کی سیر کیجئے مگر پہلے اپنے گھر کے کونے کونے سے واقفیت تو کیجئے آپ موازنہ کرنے کیلئے پہلے اپنے وطنِ عزیز کے ہر علاقے کی سیر کیجئے۔ جہاں یہ آپ کیلئے سیر و تفریح کا سامان ہے وہیں آپ کیلئے اپنے وطن سے متعلق معلومات کا بھی ذریعہ ہے۔ قدرت نے ساری دنیا ہی خوبصورت بنائی ہے مگر دنیا میں سب سے خوبصورت جگہ میرے لئے تو میرا گھر ہے مجھے پہلے اپنے گھر کو اور گھر کے مکینوں کے بارے میں جاننا چاہئے۔ پھر دیکھنا چاہئے کہ ہم ان مقامات کی بہتری کیلئے اپنا کیا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
جب تک سفر جاری رہتا ہے دل کو نامعلوم سا سکون رہتا ہے، منزل پر پہنچنے کی جستجو رہتی ہے، راستے سے شناسائی بھلی لگتی ہے۔ زندگی بھی سفر در سفر ہے اور ٹھر جانے کا مطلب ابدی سفر اختیار ہوجانا کیوں کہ یہ سفر کوئی اختیار نہیں کرتا۔ دنیا میں جہاں بھی جانا ہے جائیے مگر پاکستان سے محبت اور پاکستانی ہونے کا احساس زندہ اور پر عزم رکھئے۔ ایک دن دنیا کے تمام ممالک بھی ہمارے ملک کی مثال دینگے کہ دیکھو کیسا ملک تھا اور اب دیکھو ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ سورج بہت تیزی سے پہاڑوں کی اوٹ لئے چھپتا جا رہا تھا گاڑی کی بتیاں بھی جل چکی تھیں واپسی کے سفر میں خاموشی ہی ہوتی ہے اور ہماری گاڑی کے بھی تمام افراد خاموش بیٹھے تھے یا پھر اونگھ رہے تھے۔ کسی کی تنزلی کا سفر شروع ہوچکا ہے اور شائد اس تنزلی کے سفر میں کہیں ہماری ترقی پوشیدہ لگ رہی ہے۔