تحریر : نجم الثاقب ملک میں غریب، بھوک، افلاس کے طوفان کے باعث شہری دو وقت کی روٹی کے لئے محروم ہیں۔ ملک کے معمار، نونہال، پڑھے لکھے، ڈگری ہولڈ نوکری کے لئے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔میرٹ کے اصول اور ضابطے صرف تقریروں اور میڈیا ٹاک میں سننے کو ملتے ہیں۔ حکومت ان تمام حالات و واقعات کو بخوبی جانتے ہوئے بجائے اس کے عوام کی پریشانیوں اور تکالیف کو کم کرکے اُن کو سہولیات، ریلیف کے اقتدامات اٹھا تی اس نے عوامی نمائندوں کے مفادات کا عزم اٹھایا۔ عوام کے ٹیکس پر چلنے والے عوامی نمائندگان کی تنخواہوں میں اضافہ کا حکومتی بل پیش کیا گیا، حکومت کے ساتھ اور اپوزیشن ارکان نے بھی مسرت کا اظہار کیا۔ شرح مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعویدار کب تک عوام کو بے وقوف سمجھتے رہیں گئے۔
اپوزیشن ارکان نے بھی حکومت کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئےاس کو منظور کرم سمجھا۔ اس موقع پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان تمام دشمنیاں اور اختلاف بھلا کر ایک نظر آئے اور قومی اسمبلی سے یہ بل چند منٹوں میں منظور کر لیا۔ معزز نمائندہ گان کی اکثریت رائے کے مطابق مہنگائی کےباعث بجٹ اور اخراجات کی مد بہت زیادہ اضافہ ہوا ہےجس کے لئے ایوان ممبرا ن کی تنخواہ میں اضافہ بے حد ضروری ہے۔ حکومت کے اس بل نے مہنگائی ، بے روزگاری اورافلاس کو کم کرنے کے حکومتی دعووں کی قلعی کھل کررکھ دی۔ سرکاری ملازمین کی نظر میں یہ بل ظلم ِجمہوریت ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10سے 15اضافہ کرنے والے حکمرانوں کو اپنی تنخواہوں میں 150فیصد سے بھی زیادہ اضافہ کرتے ہوئے سوچنا چاہئے کہ جس ریاست کے مزدور، ر یڑھی بان، محنت کش دو ٹائم کھانے کے لیے مجبور ہوں وہاں کے حکمرانوں کیسے اپنی مراعات میں پہاڑ گنا اضافہ کرکے عام آدمی کے زخموں پر نمک ڈال سکتے ہیں۔ وزارت خزانہ کے پاس کیسے حساب و کتاب اور شماریات کے فارمولے ہیں کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے لئے ان کا خزانہ خالی ہوتا ہے لیکن اپنے مراعات اور الاونس کے لئے بجٹ نازل ہو جاتاہے یہ لمحہ فکریہ ہے۔
Salary
پاکستان میں تیسرا حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ہمارے ملک کی آبادی 18 کروڑ سے زیادہ ہے، 33 فیصدکل آبادی کا بڑا حصہ سرے سے ہی بنیادی ضروریات سے قاصرہے۔ 6 کروڑ کے قریب افراد کے پاس زندہ رہنے کی سہولیات کی کمی ہےایسے ملک میں یہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ہے، ممبران جو عوام کی طاقت سے ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے کے بعدعوام ہی کے لئے بوجھ بن رہےہیں۔ خدمت خلق، جذبہ سرشار اور فرض اولین کا حلف لینے کے بعد ایوانوں کی ٹھنڈک اور عیش و اآرام عوامی نمائندگان اور ممبران کو عوامی مسائل اورتکالیف کا وہ سبق بھلا چکی ہیں۔
ارکان کے علاوہ سپیکر، ڈپٹی سپیکر، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کی تنخواہیں تین گنا اور باقی مراعات دس گنا تک بڑھا لیں ۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ 71 ہزار سے بڑھا کر 2 لاکھ، سپیکر اور چیئرمین سینٹ کی تنخواہ 4 لاکھ جبکہ ڈپٹی سپیکر اور ڈپٹی چیئرمین کی تنخواہ ساڑھے تین لاکھ روپے کر دی گئی۔
ارکان پارلیمنٹ کو یوٹیلٹی الائونس آفس مینٹینس اور حلقہ الائونس کی مد میں ملیں گے۔ 2 لاکھ 20 ہزار روپے ماہانہ، ٹرانسپورٹ الائونس بھی 50 ہزار روپے بڑھا لیا۔ ہر رکن کو پانچ سال میں ایک مرتبہ 3 لاکھ روپے کے آئی ٹی آلات الائونس سے بھی نوازا جائے گا،جب کہ دیگر دوسری مراعات اس کے علاوہ ہوں گئے۔ یہ ممبران اور نمائندگان پانچ سال تک سیاہ و سفید کےمالک ہیں جو صرف الیکشن مہم کے دوران محض سبز باغ دیکھا کر عوام کو شیشے میں اترکر اپنا ہمدرد اور غم سار ثابت کرکےصرف اقدار اورعیش کے مزے لوٹنے میں مشغول ہیں۔
Najam ul Saqib
تحریر : نجم الثاقب کالم نگار، شاعر، رائیٹر 03215359604