تحریر : ایم پی خان اردو ادب کی ترویج و ترقی میں شاعروں اور ادیبوں کے کارنامہ ہائے ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ شاعروں اور ادیبوں نے نظم اورنثر میں اردو ادب کو ایسا بیش بہا سرمایہ فراہم کیا ہے، جوہر دور میں تشنگان ادب کی سیرابی کا ذریعہ ہے۔ اردوادب نے ایک طرف ہمارے ادبی ذوق کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا ہے تو دوسری طرف تاریخ کے اوراق کے ایسے درخشندہ باب کھولے ہیں، جنہوں نے سرسید، غالب، میر، حالی، درد، اقبال، فیض، حسرت، مولاناشبلی ، مولانا ابوالکلام آزاد، محمد حسین آزاد اور بے شمار ایسے نام پیداکئے، جواردو زبان بولنے اور سمجھنے والوں کے لئے ہر لحاظ سے سند اور حوالہ کا درجہ رکھتے ہیں۔
اردو ادب کی تاریخ میں کئی ایسے نام ہیں ، جواوراق پارینہ کی نذر ہو چکے ہیں اور یا شاید سائنسی ترقی کے اس برق رفتاردورمیں ہمارے ذوق مطالعہ اور تحقیق کی صلاحیت کو بٹہ لگناشروع ہواہے اورنتیجتاً ہم اردوادب کے معدودے چند ناموں کے سواکچھ جاننے کے قابل نہیں رہے۔
ایساہی ایک نام ”جلیل مانکپوری ” کاہے۔جلیل مانکپوری کااصل نام حافظ جلیل حسن ہے، جو1866کو مانکپور(اودھ) میں پیداہوئے ۔ ابتداہی سے دینی ماحول اوراچھی تربیت میسرآئی ، جس کااثریہ ہواہے کہ بہت کم عمر ی میں یعنی صرف 12سال کی عمر میں قرآن مجید کاحفظ کر لیا۔
عربی اورفارسی کادرس اپنے والد حافظ عبدالکریم سے لیااوردونوں زبانوں میں خوب مہارت حاصل کی اوراسکے بعدطلب علم کاشوق انہیں لکھنولے گیا،جواس وقت علم وفضل اورادب وفن کامرکزتھا۔شعروسخن کاشوق ا بتداہی سے تھا ۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے بڑے استاد امیر مینائی کی شاگردی اختیار کی۔ چونکہ امیرمینائی اس وقت والئی رامپور کے استاد تھے ، لہذا انہوں نے جلیل مانکپوری کو بھی رامپور بلالیا، جہاں وہ دفتر امیر اللغات کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔
Taaj-e-Sukhan-Deewan-e-Avval
داغ کی وفات کے بعدج لیل امیر مینائی کے ساتھ حیدرآباددکن پہنچے اور جلیل میرمحبوب علی آصف کے استادمقررہوئے اورانہوںنے جلیل کو”جلیل القدر”کے خطاب سے سرفرازکیا۔ جب نواب میرعثمان علی تخت پر بیٹھے توانہوں نے بھی جلیل کو اپنی استادی کے شرف سے سرفراز فرمایا اور جلیل کو” فصاحت جنگ بہادر ”اور ” امام الفن ” کے لقب عطا کئے۔
اِس جہاں سے گزرگئے لاکھوں اُس گلی سے کوئی گزرنہ سکا
ریاست رامپوراوردکن میں جلیل مانکپوری کی اس قدرعزت افزائی اس بات کاثبوت ہے کہ جلیل اس وقت کے مسلم الثبوت استادتھے ۔انہیں شاعری کے فن پر خوب عبورحاصل تھا۔انکے کلام میں زبان کے محاورہ اور روزمرہ کابہت خوبصورت اوربرمحل استعمال ہے۔جلیل مانکپوری کاشمار اردواب کے ان شعرامیں ہوتاہے ، جنہوں نے اردوشاعری کی روایت کو توانا اور مستحکم بنانے میں ناقابل فراموش کرداراداکیاہے۔جلیل مانکپوری کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں امیرمینائی جیسے صوفی اوردرویش صفت استادمیسرآئے اورپھر میرمحبوب علی خان آصف اورمیرعثمان علی خان بہارآصف سابع جیسے ادب پرورفرمان روائوں کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ان تمام حالات نے جلیل کے فن اورشخصیت پر بہت اچھااثرڈالا اورانکی فکری ہیت اورتخیلاتی نہج کوبہت ترقی حاصل ہوئی۔انکی شعری فصاحت کاآج بھی خوب چرچاہے۔ جلیل کی شخصیت کی تشکیل میں انکے فن اورسیرت دونوں نے برابرحصہ لیا۔یہ انکی خوش قسمتی تھی کہ انہیں بہترتوارث اوراچھاعلمی ماحول ، اعلیٰ درجے کی تربیت گاہیں اورشاہان اوراعلیٰ شخصیات کی صحبتیں میسرآئیں۔بچپن میں گھرکاماحول علمی اوردینی پایا اورشعور میں لکھنوکاادبی اورشعری ماحول نصیب ہوا۔جس کااثرانکے اشعارمیں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔
بحرغم سے پارہونے کے لئے موت کو ساحل بنایاجائے گا
انکے کلام میں پانچ دواوین شامل ہیں جویہ ہیں۔ تاجِ سخن، جانِ سخن،روحِ سخن،سرتاجِ سخن اورمعراج ِ سخن۔اسکے علاوہ انہوں نے عروض اردو، زبان وبیان ، تذکیر وتانیث اورسوانح امیرمینائی جیسی شاہکارتصانیف بھی تشنگان علم وادب کی سیرابی کے لئے تصنیف کی ہیں۔علاوہ ازیں رباعیات کاایک مجموعہ گل صدبرگ اورایک رسالہ تعلیم الصلواة بھی مرتب کیاہے۔محاورات کامجموعہ ”معیاراردو” میں صحیح محاوروں کے ادراک سے اردوادب کے قارئین کو روشناس کیا۔
کچھ اشعاربطورنمونہ کلام آیانہ پھرکے ایک بھی کوچے سے یارکے قاصدگیانسیم گئی نامہ برگیا خامُشی سے کھل گئے اسرارحق سوزباں اک بے زبانی ہوگئی ہم نے جس دنیاکودیکھاتھاجلیل آج وہ قصہ کہانی ہوگئی
شاہان دکن کی استادی کاشرف حاصل کرنے والے مشہور کلاسیکی شاعر حضرت فصاحت جنگ جلیل مانکپوری نے اپنی پوری زندگی درویشانہ طورپر گزاری۔ حرص وطمع اورجاہ ومنصب کی پرواکئے بغیر انہوں نے اردو شاعری اورادبِ عالیہ کی خدمت کی ۔وہ دبستان لکھنوکے نمائندہ شاعر تصور کئے جاتے ہیں۔تاہم اردوادب کے بہت بڑے بڑے نام اورادب کے طلبہ انکے نام اورکارناموں سے لاعلم ہیں۔جلیل مانکپوری 6 جنوری 1946 کو حیدرآباد دکن میں انتقال کر گئے اور وہیں دفن ہوئے۔