انڈیانا (جیوڈیسک) ریاست انڈیانا سے تعلق رکھنے والے کانگرس رکن آندرے کارسن نے کہا ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مسلمان اکثریت والے سات ملکوں کے شہریوں پر امریکہ میں داخلہ پر عارضی پابندی کے حکم نامے کے طویل المدتی اثرات ہونگے اور اس سے داعش اور القائدہ جیسی تنظیموں کو مزید بھرتیوں میں ممکنہ طور پر مدد ملے گی۔
صدر ٹرمپ کے سفری پابندی والے حالیہ ایزیکٹیو آرڈر پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کارسن کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے خوف بڑھے گا اور امریکہ بہت سال پیچھے چلا جائے گا کیونکہ یہ ایک غیر امریکی اقدام ہے اور یہ حب الوطنی پر مبنی نہیں ہے۔
“اس فیصلے سے اسلامو فوبیا، نسل پرستی اور تاریکن وطن کے خلاف جذبات کا اظہار ہوتا ہے” ٹرمپ کے مطابق یہ پابندی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا اقدام نہیں ہے، برعکس اس کے اُنھوں نے اسے احتیاطی اقدامات کے سلسلے کا پہلا قدم قرار دیا ہے، جس کا مقصد امریکہ کو محفوظ بنانا ہے۔
صدر ٹرمپ نے جس انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے تھے اس کے تحت آئندہ 120 روز کے لیے پناہ گزینوں کے امریکہ میں داخلے پر قدغن جب کہ ایران، عراق، شام، صومالیہ، سوڈان، لیبیا اور یمن کے شہریوں کے امریکہ آنے پر 90 دن کی پابندی عائد کی گئی۔
کانگرس رکن کا کہنا تھا کہ اس سے وہ لوگ متاثر ہوں گے جو یہاں خاندانوں کی شکل میں آئے ہیں۔ ان مسلمانوں میں وکیل، ڈاکٹر، پولیس افسر اور کاروبار کرنے والے لوگ بھی ہیں جو اس اقدام کے بعد امریکہ جیسے ملک میں اکیلے رہ جائیں گے جو ہر طرح کے لوگوں کے لئے کھلا ہے۔
ہوم لینڈ سکیورٹی کے وزیر، جان کیلی نے کہا ہے کہ ’’یہ سفری پابندی کا معاملہ نہیں ہے، یہ عارضی بندش ہے جس سے مہاجرین سے متعلق مروجہ ضوابط اور ویزا کے نظام کی کڑی نگرانی کا جائزہ لینے میں مدد ملتی ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ نئے حکم نامے کا مقصد دہشت گردوں کو ملک سے دور رکھنا ہے۔ لیکن اس بات پر زور دیا کہ یہ ’’مسلمانوں پر بندش‘‘ کا معاملہ نہیں ہے۔
لیکن اس فرمان کے نافذ ہونے پر خاص طور پر امریکہ کے مختلف ہوائی اڈوں پر اس وقت صورتحال الجھن کا شکار نظر آئی جب کئی ایسے افراد جن کے پاس امریکہ میں مستقل رہائش کا “گرین کارڈ” بھی تھا، انھیں مزید پوچھ گچھ کے لیے حکام نے روک لیا۔
کانگرس کے رکن آندرے کارسن کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے اس حکم نامے سے مسلمان ملکوں اور دنیا کو یہ پیغام ملتا ہے کہ ہم آپ پر اعتبار نہیں کرتے، ہم امن و سلامتی کے تعلقات میں آپ کو اہم نہیں سمجھتے اور ان اختلافات کے خاتمے میں آپ کے کسی کردار کو نہیں مانتے جو گذشتہ کچھ سالوں سے درپیش ہیں۔
ایران، شام اور سوڈان دہشت گردوں کی معاونت کرنے والی ریاستوں کی امریکی محکمہ خارجہ کی فہرست میں شامل ہیں جب کہ عراق، لیبیا، یمن اور صومالیہ کا شمار ان ملکوں کی فہرست میں ہوتا ہے جہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں۔
دوسری طرف اس حکم نامے کے خلاف امریکہ بھر میں ہزاروں افراد سراپا احتجاج ہیں اور ڈیموکریٹس اس پابندی کے خلاف قانون لانے کی تیاری کر رہے ہیں۔