سوئپر صرف غیر مسلم کیوں؟

Sweeper in Pakistan

Sweeper in Pakistan

تحریر : واٹسن سلیم گل
ابھی میرے گزشتہ کالم کی سیاہی بھی نہی سوکھی تھی کہ وہ ہی ہوا جس کا زکر میں نے اپنے گزشتہ کالم “نواز شریف اور پاکستان کی اقلیتیں” میں کیا تھا۔ نواز شریف اور پنجاب حکومت اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے مجھے تو کبھی بھی سنجیدہ نظر نہی آئے۔ بلکہ میں اگر یہ کہوں کہ ملک میں اقلیتوں کے ساتھ تعصب اور تفریق کے لئے ن لیگ تمام سیاسی جماعتوں میں سب سے آگے ہے اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں سب سے پیچھے ہے تو غلط نہی ہوگا۔ گزشتہ ہفتے میری نظر سے ایک اخباری اشتہار گزرا یہ اشتہار فیصل آباد ویسٹ مینجمنٹ کی جانب سے تھا جس میں ویسٹ ورکر سوئپرز جن کو عام زبان میں (چوڑے) کہا جاتا ہے کی 337 آسامیاں تھیں۔ آسامیوں کی آخری تاریخ 8 فروری 2017 تھی۔ دُکھ اور حیرت کی بات یہ تھی کہ ان آسامیوں کے لئے امیدوار کے لئے لازم تھا کہ وہ غیر مسلم ہو۔ ویسے تو اپنے گھر، محلے اور ملک کو صاف ستھرا رکھنا کوئ غلط بات نہی ہے۔ اور یہ ہم سب کا اولین فرض ہے مگر اس طرح سے سوئیپر کی نوکری کو صرف اقلیتوں کے ساتھ منسلک کرنا اور اس کام کو اقلیتوں کی پہچھان بنا دینا اقلیتوں کے ساتھ تعصب، نا انصافی اور ان کی تحضیک ہے۔اور پھر یہ علانات کرنا کہ ہمارے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ کسی قسم کا بھی تعصب اور نفرت نہی ہے سب جھوٹ اور فریب ہے۔ میرے سامنے 2014 کا فیڈرل لینڈ کمیشن اسلام آباد کا اشتہار بھی پڑا ہوا ہے جس میں بہت سی آسامیاں ہیں مگر سوئپر (صفائ) کے کام کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ غیر مسلم ہو۔

میرے پاس محکمہ صحت ملتان کا سینٹری ورکرز کے لئے 2016 کا اشتہار جو کہ ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر ڈاکٹر افتخار حُسین قریشی کی جانب سے تھا اس میں بھی سینیٹری ورکرز (چوڑے) کے لئے لازمی شرط یہ تھی کہ امید وار غیر مسلم ہو۔ یہ تمام ادارےحکومت کی سرپرستی میں چلتے ہیں اور اس قسم کے اشتہارات اخبارات میں ان کی مرضی سے شایع ہوتے ہیں اور مزہبی تفریق اور تعصب پھیلانے میں ان کا قلیدی کردار ہے۔ اگر اس کے برعکس اس طرح کی نوکریاں بغیر تفریق کے ہوں اور سب کے لئے ہوں اور کسی بھی چھوٹے بڑے کام کے لئے کو مزہبی، قومی تفریق نہ ہو تو کیسے ایک مسلمان جو کہ خود بھی صفائ کا کام کر رہا ہوں وہ کسی غیر مسلم خصوصی طور پر کسی مسیحی کو سوئپر(چوڑا) کہہ کر اس سے نفرت یا تعصب کر سکتا ہے۔

اس صفائ کے کام کی وجہ سے مسیحیوں کی آبادیوں کو مسلمانوں کی آبادیوں سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ اس سے شخصی تفریق کے ساتھ قومی تفریق اور نفرت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب اگر کوئ یہ کہے کہ پاکستان میں اقلیتیوں کو معاشرے میں برابری کے حقوق حاصل ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ شخص کم از کم اپنی مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر یہ دعویٰ نہی کر سکتا۔ یہ تفریق اور تعصب اب معاشرے کے دیگر اداروں میں بھی تفریق کی صورت میں نظر آتا ہے ابھی دو دن قبل ہی لاہور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے جوزف کالونی کے 115 ملزمان کو ناکافی ثبوتوں اور ناکافی گواہان کی وجہ سے بری کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ کوئ گواہ پیش نہی ہو رہا ہے۔ میں یہ بات کئ بار کہہ چکا ہوں کہ کون ایسا مسیحی ہے جو اپنے آس پڑوس کے سو یا دوسو مسلمانوں کے خلاف گواہی دے گا جب کہ وہ جانتا ہو کہ اسے ساری زندگی ان مسلمانوں کے پڑوس میں رہنا ہے۔

Media

Media

حیرت انگیز طور پرعدالت نے ان ویڈیوز پر توجہ نہی دی جو درجنوں کے حساب میں سوشل میڈیا پر موجود ہیں جن میں اس کالونی کو جلانے سے تقریبا 18 گھنٹے قبل ہجوم اکٹھا ہو رہا ہے پولیس موجود ہے مگر 18 گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی اس مسیحی کالونی کو نہ بچا سکی اور ان ویڈیوز میں جلانے والوں کے چہرے صاف اور شفاف طور پر نظر آرہے ہیں۔ دوسری اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات ہے کہ اسی عدالت نے یوحنا آباد کے واقعہ کے بعد مشتعل ہونے والے مسیحیوں کی توڑ پھوڑ پر ویڈیوز کی مد د سے گرفتار ہونے والے دو درجن سے زائد مسیحیوں پر فرد جرم عائد کرنے کے بعد ان کو جیل بھیج دیا جن میں ایک مسیحی راہنما اسلم پرویز سوہترہ بھی شامل ہے۔

یہ وہ مسیحی تھے جو اپنے عزیزوں کے جسم کےکٹے ہوئے ٹکڑوں کو سامنے دیکھ کر اپنے ہوش کھو بیٹھے۔ گو کہ میں پھر بھی یہ نہی کہہ رہا ہوں کہ ان کو اس طرح مشتعل ہونے کی اجازت ہونی چاہے تھی پھر ان کو ان کے اعمال کی سزا دو سال سے مل رہی ہے۔ مگر شانتی نگر، گوجرہ ، سمبھڑیال، تحسیر ٹاؤن، بادامی باغ کے زمہ داروں کے خلاف ثبوت نہی ہیں۔ کرسمس کے موقع پر زہریلی شراب پی کر ہلاک ہونے والوں کے اہل خاندان اس وقت انتہائ مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں مگر حکومتی وعدوں کے باوجود ابھی تک ان کو کچھ نہی ملا۔

اس وقت بھی بہت سے مسیحی نمایندوں کو یہ خدشات ہیں کہ حال میں ہونی والی مردم شماری شفاف طریقے سے ہونی چاہئے۔فوج کی نگرانی میں ہونے چاہئے۔اب مجھے کوئ بتائے کہ اس وقت پاکستان میں مسیحیوں کے حقیقی نمایندے کون سے ہیں جس پر یہ مسیحی اعتبار کر سکتے ہیں۔ میں ایک بار پھر اقلیتوں کے لئے اس سلیکشن سسٹم کو رد کرتا ہوں اور حکام عالیٰ سے درخواست کرتا ہوں کہ خدارا اقلیتوں کو بھی اپنے نمایندے اپنے ووٹوں سے منتخب کرنے کا حق دیں۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر : واٹسن سلیم گل