تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر ہم 1990 سے منا رہے ہیں۔ کشمیریوں سے اظہار یک جہتی مرحوم و مغفور سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے ایسے حالات میں منایا جا رہا ہے کہ ہم میں وہ شخصیت موجود نہیں ہے جس نے سب سے پہلے 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا تصور پیش کیا تھا۔5 فروری 1990 ء یومِ یکجہتی کشمیر کی حیثیت سے لیکن قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور رحمہ اللہ تحریک آزادی ئکشمیر کے ساتھ یکجہتی کے ان اصول و مبادی کو سیاسی نعروں کے طور پر استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے عقیدے کا حصہ سمجھتے تھے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے ان اصولوں کو پوری قوم ایک سیاسی عقیدے اور ایجنڈے کے طور پر اختیار کرے۔ لہذا اس مقصد کے لئے انہوں نے یہ پروگرام بنایا کہ 1990 ئمیں تحریک جہاد کشمیر کے باقاعدہ آغاز کے بعد اس تحریک کے ساتھ یکجہتی کے لئے قومی سطح پر ایک مخصوص دن منایا جائے اور اس کے لئے 5 فروری 1990ئکشمیر کے ساتھ یکجہتی کے دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ اس کے لئے قاضی حسین احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے 5 جنوری 1990ء کو ایک پریس کانفرنس میں یہ دن منانے کے حوالے سے باقاعدہ اپیل کی۔یہ بات اپنے بیگانے سب تسلیم کرتے ہیں کہ محترم قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور کی حیثیت موجودہ تحریکِ آزادیئکشمیر کے آغاز سے اس کے ایک بہت بڑے محسن اور پشتیبان کی رہی تھی۔ اور انہوں نے اس تحریک کی تائید وحمایت کے حوالے سے ذاتی طور پر بھی اور جماعتی حیثیت سے بھی جو گرانقدر کوششیں کی تھیں۔
پانچ فروری کو یوم ِ یک جہتی کشمیر منانے کا مقصد صرف جمع تفریق نہیں تھا۔ یہ دن ہم رسم کے طور پر نہیں مناتے بلکہ ہمارا یقین اور ایمان ہے کہ نمبر 1 : کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے حوالے سے قاضی حسین احمد رحمہ اللہ کے تصور کا پہلا بنیادی اصول یہ تھا کہ جہاد کشمیر اپنی نوعیت او راہمیت کے اعتبار سے کشمیر کی آزاد ی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بقائو سالمیت اور تکمیل کی جنگ بھی ہے ۔ نمبر2۔ ہم مسئلہ کشمیر کو تقسیم برصغیر کے ایجنڈے کا حصہ قرار دیتے ہیں اور قرار دیتے رہیں گئے نمبر 3۔ بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کے فرمان کے مطابقکشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ ہم کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سمجھتے تھے ، سمجھتے ہیں اور کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سمجھتے رہیں گئے۔
نمبر4۔ کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے حوالے سے کہ مقبوضہ کشمیر کی بھارت سے آزادی کو مقبوضہ کشمیر میں اسلام، اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کی بقا کے لئے ضروری سمجھتے ہیں نمبر5ہمارا پختہ یقین ہیکہ اگر مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی اور حق خودارادیت کے لئے جدوجہد نہ کی گئی تو کشمیر میں بھارتی حکمرانوں کے ہاتھوں اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کا وہی انجام ہوگا جو قبل ازیں اندلس میں اسلام اور مسلمانوں کا ہوچکاہے۔ 6 :۔ کشمیر کے ساتھ یکجہتی یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا جارحانہ تسلط تقسیم برصغیر کے اصولوں کیساتھ ساتھ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق بھی غیر آئینی اور غیرقانونی ہے۔ لہذا کشمیری مسلمان اپنی تحریک مزاحمت میں ہر لحاظ سے حق بجانب ہیں۔ 7۔: کشمیر کے ساتھ یکجہتی یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض فوجوں کے ہاتھوں ظلم و استبداد کا شکار کشمیری مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کی مدد کرنا پاکستانی مسلمانوں پر واجب ہے۔ 8: کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا مطلب ہے کہ بھارت کے جارحانہ عزائم کو صرف کشمیر یا پاکستان تک محدود نہ سمجھے جائیں بلکہہمسمجھتے ہیں کہ بھارت،کشمیر اور پاکستان کے ساتھ ساتھ عالم اسلام اور مقدسات اسلامیہ کے خلاف اپنے عزائم کی تکیل چاہتا ہے ۔9: کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا مطلب کشمیر کی بھارت سے آزادی پاکستان کی اقتصادی اور زرعی ترقی کے لئے بھی ضروری ہے۔ اس لئے کہ اگر کشمیر پر بھارتی تسلط قائم رہا تو وہ کشمیر سے نکلنے والے دریاوں پر ڈیم بنا کر پاکستان کو بنجر اور صحرا بنادے گا۔
5th February – Kashmir Day
جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر مرحوم و مغفور قاضی حسین احمد نے 5 فروری 1990 ء اس اپیل کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا۔ اس وقت چونکہ پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت تھی اور محترم میاں محمد نواز شریف وزیرِ اعلیٰ تھے۔ لہٰذا انہوں نے محترم قاضی صاحب کی اپیل سے اتفاق کرتے ہوئے 5 فروری 1990 ء کو پنجاب بھر میں سرکاری طور پر یومِ یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کر دیا۔ مرکز میں اس وقت محترمہ بینظیر بھٹو مرحومہ کی حکومت تھی لہٰذا انہیں بھی اس دن کو سرکاری طور پر یومِ یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کرنا پڑا، طے پایا کہ اس مقصد کے لیے پورے ملک میں ہر شہر اور ہر قصبے کے ہر محلے میں تمام سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔یہ بھی طے پایا کے ان کمیٹیوں کے زیر اہتمام 5 فروری کو پورے ملک کے ہر شہر اور ہر قصبے میں کشمیر کانفرنسوں اور کشمیر ریلیوں کا اہتمام کیا جائے۔٭یہ بھی طے پایا کے5 فروری1990 کو کشمیر ی عوام کے ساتھ اظہا ر یکجہتی کے لیے منعقد ہونے والی کشمیرکانفرنسوں اور کشمیر ریلیوں میں انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر کشمیر ی عوام کو یہ پیغام دیا جائے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔اس سلسلے میں یہ بھی طے پایا کہ انسانی ہاتھوں کی زنجیر کا اہتمام یوں توتمام بڑے بڑے شہروں میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں اور ریلیوں میں کیا جائے، لیکن خصوصیت کے ساتھ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباداور کنٹرول لائن پر مقبوضہ کشمیر کی سرحد کے قریب واقع چکوٹھی کے قصبے میں بطور خاص ہاتھوں کی زنجیر بنانے کا اہتمام کیا جائے۔
کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے سلسلہ میں طے پایا کہ یوم یکجہتی کشمیر کی تمام سرگرمیوں کو پاکستان کے قومی ذرائع ابلاغ خصوصاً ٹیلی وژن، ریڈیو اور اخبارات کے ذریعیزیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ 5فروری یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر ان اقدامات کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ پورے پاکستان میں تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے بیداری اور یکجہتی کی ایک ایسی فضا پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں ملک کا ہر فر د،خیبر سے کراچی تک،تحریک آزادی کشمیر کے جذبے سے پوری طرح سرشار ہو گیا اور اس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کے عوام تک یہ پیغام بھی پہنچا کہ وہ بھارت سے آزادی اور حق خود ارادیت کی جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں بلکہ ان کے آزاد کشمیر اور پاکستان کے بھائی بھی ان کے ساتھ ہیں اور یہی 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کااصل مقصد تھا۔کشمیر کے ساتھ یکجہتی منانے کے بعد سے یہ دن نہ صرف یہ کہ سرکاری طور پر اہتمام کے ساتھ پورے ملک میں منایا جاتا ہے بلکہ دنیا کے اکثر ملکوں میں وہاں کی اسلامی تحریکوں کی طرف سے بھی اسے یومِ یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن نہ صرف پورے ملک بلکہ پورے عالم ِاسلام میں تحریکِ آزادی کشمیر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے جلسوں، جلوسوں، کانفرنسوں اور سیمیناروں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اخبارات و رسائل خصوصی ایڈیشن شائع کرتے ہیں۔ اور تجدید ِ عہد کیا جاتاہے کہ تحریکِ آزادی کشمیر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے حوالے سے ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی جائے گی۔
بدقسمتی سے مسئلہ کشمیرکے حل کی طرف بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ قائد حریت سید علی گیلانی سمیت تحریک آزادی سے وابستہ تمام حلقے یہ مؤقف پیش کرتے رہے ہیں کہ اگر بات چیت ہو تو محض آلو پیاز پر اور اسی طرح کے جزوی مسائل پر نہ ہو بلکہ مسئلہ کشمیر پر ہو اور ان شرائط کے ساتھ ہو کہ: ـ1بھارت اٹوٹ انگ کی رٹ ترک کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو حل طلب تسلیم کرے۔ ـ2مقبوضہ کشمیر سے فوجی انخلاء کرے، کم از کم پہلے مرحلے پر آبادیوں سے فوج واپس بلائے ـ3 کالے قوانین واپس کرے۔ ـ4ہزاروں گرفتار شدگان جو سال ہا سال سے جیلوں میں پڑے ہیں، کو رہا کیا جائے۔ ـ5قائد حریت سید علی گیلانی اور دیگر قائدین حریت کی حراستوں کو ختم کرتے ہوئے شہری آزادیاں بحال کرے اور انہیں اپنا مقدمہ بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کرنے کا موقع دے۔ اس سلسلے میں انہیں سفری دستاویزات فراہم کرے۔ 6۔ 55 لاکھ متاثرین سیلاب کے لیے بین الاقوامی NGOsاور آزادکشمیر و پاکستان میں مقیم کشمیریوں کو کشمیری بھائیوں تک امداد پہنچانے کا موقع فراہم کرے۔
ہم کو بحثیت مسلمان اور پاکستانی ہونے پر فخر کرنا چائیے اور اللہ پاک کا ارشاد ”آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑ و جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے۔” (سورہ النسائ، آیت 75) ۔۔۔۔۔کی روشنی کے سلسلہ میں سیاست اور ذاتیات سے ہٹ کر کشمیر کی آزادی کے لئے ٹھوس حکمت ِ عملی اپنانی ہوگی ورنہ 5 فروری یوم ِ یک جہتی کشمیر منانا ایک رسم کے سواکچھ بھی نہیں ہو گئی۔