تحریر : محمد ناصر اقبال خان اسلام کے بغیر اسلام آباد کی کوئی حیثیت نہیں، بدقسمتی سے پاکستان کے زیادہ تر سیاستدانوں نے اسلام کی بجائے اسلام آباد کو اپنا بنیادی مقصد اور اپنی منزل بنایا، جو اسلام کے ساتھ مخلص نہیں وہ اسلام آباد کا وفادار کس طرح ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں اسلام کے نام پر سیاست میں سرگرم زیادہ تر پارٹیاں بھی اسلام کی بجائے اسلام آباد کی محبت میں گرفتار ہیں۔ اسلامی ریاست میں آج تک کوئی مذہبی جماعت برسر اقتدار نہیں آئی تاہم اتحادی کی حیثیت سے دینی رہنما شریک اقتدار ہو جاتے ہیں۔
دبنگ قاضی حسین احمد مرحوم اپنے دور کے فرعونوں اوریذیدوں کو للکارتے ہوئے دنیا سے چلے گئے مگران کی زندگی میں بھی عوام نے ان کی بجائے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور دی تھی۔پاکستانیوں کی اس حالت زار میں ان کااپنا ہاتھ ہے،پاکستان کی سمت تبدیل کرنیوالے بھی کوئی اورنہیں ہم خود ہیں۔ اسلام پرکاربندلوگ بھی اقتدارکی باگ ڈورکسی اسلامی پارٹی کو دینے کیلئے تیار نہیں نتیجتاً روشن خیالی کے علمبردارسرمایہ دار زراورزور سے اقتدار ہتھیانے کے بعداسلام اوراسلام آبادکے مفادات کوبلڈوز کرتے ہیں۔حکمران اپنے اسلام اورایمان کی حفاظت کریں اسلام آباد کی حفاظت خودبخودہوجائے گی ، جواپنے ایمان اوراپنے اندراسلام کی حفاظت نہیں کرسکتا وہ اسلام آباد کوکسی اندرونی یابیرونی حملے سے کیا خاک بچائے گا۔انسان اگراللہ تعالیٰ سے ڈرے تویہ ڈراُس کادوست اوردُرست ہے لیکن دشمن سے ڈرنے والے مُردوں اورنامردوں سے بدترہیں ۔جوکسی کافر سے ڈریادب جائے وہ مسلمان نہیں ہوسکتااورنہ اس ڈریامنافقت کومصلحت پسندی کانام دیا جا سکتا ہے۔
اسلام اورمسلمان دشمن قوتوں سے مرعوب ہونیوالے کسی اسلامی ملک پر حکومت نہیں کرسکتے ۔ ایٹمی پاکستان کے ”مقبول” حکمرانوں نے” ڈپریشن ”کے ڈر سے ڈونلڈ کی ڈکٹیشن مان لی۔وزیراعظم میاں نوازشریف سے پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمرجاویدباجوہ کی حالیہ اچانک ملاقات کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی پروفیسر حافظ محمد سعید کی نظربندی کے سلسلہ میں پریس کانفرنس معنی خیز تھی۔بیرونی دبائوپرتحریک آزادی کشمیر یعنی تحریک تکمیل پاکستان کے علمبردار پروفیسرحافظ محمدسعید کونظربندکرنایاان کی نظربندی کوریاستی فیصلہ قراردیاجانادرست ہے یانہیں اس کافیصلہ مورخ پر چھوڑدیا جائے لیکن راقم کے نزدیک اس پریس کانفرنس کیلئے حکومت کے ترجمان یاوفاقی وزیراطلاعات کی بجائے ڈی جی آئی ایس پی آر کاانتخاب درست نہیں تھا۔
پروفیسر حافظ محمد سعید کی نظربندی حکومت کاڈس کریڈٹ ہے اس میں پاک فوج کوملوث نہ کیاجاتاتواچھاہوتا ۔پاکستان کومقبول نہیں معقول حکمران کی ضرورت ہے،جودرست اوردوررس فیصلے کرے ۔یہ کہنا ”ڈکٹیشن نہیں لوں گا،کشکول توڑدوں گا”بہت آسان مگر ان بلندبانگ دعوئوں پرپورااترنا بہت دشوار ہے۔آج پاکستان کے حکمران ڈکٹیشن بھی قبول کررہے ہیں جبکہ ماضی کے مقابلے میںکشکول کاحجم بھی کئی گناء بڑھ گیا ہے ۔مقروض پاکستان کی مفلوج معیشت آئی سی یوسے ہرگز باہرنہیں آسکتی ہے ۔پراناقرض اتارنے کیلئے نیاقرض لیا جارہا ہے اور اس کے باوجود حکمران معاشی انقلاب کامژدابھی سنارہے ہیں۔پاکستان اوربھارت کے درمیان بدترین دشمنی ہے توپھر دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کس طرح دوست ہو سکتے ہیں۔
ہرعہد میں ضمیر کے قیدی آئے اوردنیا پراپناانمٹ نقش چھوڑگئے،آج بھی ضمیر کے قیدی اورسرفروش کشٹ کاٹ رہے ہیں جبکہ ضمیرفروشوں کی چاندی ہے۔عہدحاضر کے سرفروش اور ضمیر کے قیدی پروفیسر حافظ محمدسعید تحریک آزادی کشمیر کے سرخیل اور بھارتی فسطائیت کیخلاف سربکف ہیں،ان کی نظربندی کاحکم اوراقدام ماورائے آئین ہے۔تعجب ہے ڈونلڈٹرمپ کے ایک بیان پرحکمرانوں نے سرنڈرکردیا ،پرویز مشرف کوبزدلی کاطعنہ دینے والے خود اس بھی زیادہ کمزور نکلے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ ہرزہ سرائی کے بعدپاکستان میںپروفیسر حافظ محمدسعید کی نظربندی جبکہ ارباب اقتدار کی زبان بندی ناقابل فہم ہے۔پانامالیک کے دفاع جبکہ پاک فوج کیخلاف مسلسل بولناشاید کچھ وزراء کافرض منصبی ہے لیکن ڈونلڈٹرمپ اور نریندرمودی کی اسلام اورپاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی پر یہ طاقتوراورزبان دراز وزیر” زبان بندی ”پرمجبوریاشاید جرأت اورجذبات سے محروم ہیں۔کسی زبان درازکوسیاسی طورپردرازقدسمجھنا شرمناک ہے،معاشرے میں اثرورسوخ کے حوالے سے درازقد کبھی زبان دراز نہیں ہو گا۔
Hafiz Muhammad Saeed
نجی ٹی وی والے بھی جان بوجھ کراپنے ٹاک شوزمیںزبان درازوں کو مدعو کرتے ہیں اوران کی گفتگوسن کردنیا پاکستان پرہنستی ہے ۔پاکستا ن کی تعمیروترقی کیلئے حکمرانوں سمیت ریاستی اداروں بالخصوص میڈیا کوبھی اپنی ترجیحات تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ان دنوں بھی میڈیا کے سرپرپاناما کابھوت سوار ہے ،پاناما لیک کوبھی یقینا کوریج دی جائے لیکن کشمیر سمیت دوسرے ہاٹ ایشوز سے مجرمانہ چشم پوشی مناسب نہیں۔بیس کروڑ پاکستانیوں کی طرح پروفیسر حافظ محمدسعیدبھی اپنے کشمیری بھائیوں کیلئے آزادی مانگ رہے ہیں جبکہ اس پاداش میں ان کی اپنی آزادی سلب کرلی گئی ہے۔اگرتحریک آزادی کشمیر کے حق میں آوازاٹھانا گناہ ہے توپھر پروفیسرحافظ محمدسعید تنہا گنہگارنہیں بلکہ دنیا بھر کے باضمیر انسان اس گناہ میں شریک ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ یانریندرمودی کے دبائوپرکس کس کو نظربندکیاجائے گا۔
پروفیسر حافظ محمدسعید کی نظربندی پر پاکستان سمیت جموں وکشمیر میں صف ماتم بچھ گئی ہے جبکہ امریکہ ،اسرائیل اور بھارت کے حکمران جشن منا ر ہے ہیں ۔ افسوس ایٹمی پاکستان کے منتخب حکمرانوں نے بیرونی دبائو پر انہیں نظربند کیا،پروفیسر حافظ محمد سعید کی چھ ماہ کیلئے نظربندی جبکہ فلاح انسانیت فائونڈیشن پرپابندی کے نتیجہ میں پاکستان کی داخلی خودمختاری کاجنازہ اٹھ گیا۔پاکستان کی ہندوبرادری نے بھی پروفیسرحافظ محمدسعید کی نظربندی کیخلاف شدید احتجاج کیا کیونکہ وہ مذہب کی تفریق سے بے نیاز مستحق انسانوں کی خدمت کرتے ہیں۔
امریکہ کے سابق صدربل کلنٹن کے مسلسل دبائو کومسترد کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کئے گئے ،یہ وہ دعویٰ تھا جو میاں نوازشریف کی طرف سے کئی بار کیاگیامگرموصوف اس بار دبائو میں کیوں آگئے،کہاں بل کلنٹن اورکہاں ڈونلڈٹرمپ۔اگرحکمران بیرونی دبائوبرداشت نہیں کر یں گے توپاکستان کے اقتداراعلیٰ کاکیا بنے گا۔اگربرادراسلامی ملک ایران اورعراق ڈونلڈ ٹرمپ کے انتہاپسندانہ اورجارحانہ مائنڈ سیٹ کیخلاف مزاحمت کرسکتے ہیں توایٹمی پاکستان کے حکمرانوں نے سرنڈر کیوں کردیا وہ بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے روبرو جوامریکہ کی تاریخ کا متنازعہ اورکمزورترین صدر ہے ۔ڈونلڈٹرمپ کواس کے اپنے ملک میں سنجیدہ نہیں لیا جاتا توہمارے حکمران کیوں اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے توشروعات میں ہی خودکوداخلی تنازعات میں الجھالیا ہے ،نومنتخب امریکی صدرکے ہم وطن اس کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔ڈونلڈٹرمپ بھی نریندرمودی کی طرح نفرت کی علامت بن گیا ہے ۔منتخب ہونااورمحبوب ہونا دومختلف معاملے ہیں،ڈونلڈٹرمپ اور نریندرمودی دونوں منتخب ہیں مگر اپنے ہم طنوں کے محبوب نہیں۔پاکستان کے منتخب وزیراعظم میاں نوازشریف بھی پاکستانیوں کے محبوب نہیں رہے ،سوشل میڈیا پران کیلئے جوکچھ لکھا جاتا ہے وہ کالم میں بیان نہیں کیا جاسکتا،خاص طورپرپاناما لیک کے بعدحکمران لیگ کی سیاست اورساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔کمزور حکمران بیرونی دبائو کامقابلہ کرسکتے ہیں اورنہ اندرونی چیلنجز سے نبردآزماہونا ان کے بس میں ہوتا ہے۔
امریکہ ،اسرائیل اورانڈیا کی شیطانی تکون کے شر سے اسلام اور مسلمانوں کوشدید خطرہ ہے،بدقسمتی سے خطرات کااِدراک اوراحساس ہونے کے باوجودمسلم حکمرانوں نے ابھی تک آپس میں سر نہیں جوڑے۔مسلم حکمرانوں کی ناقص ترجیحات اوران کے نجی مفادات کاخمیازہ مسلمان بھگت رہے ہیں۔کفار کے مابین اتفاق جبکہ مسلمانوں کے درمیان نفاق اسلام کیلئے زہرقاتل ہے۔باری باری مسلم ملکوں کی بربادی کے باوجود مسلم حکمرانوں کوہوش نہیں آیا۔حکومت سعودی عرب کا ڈونلڈٹرمپ کے اسلام دشمن اقدامات کے حق میں بولناافسوسناک ہے، سعودیہ حکام کے حالیہ بیان سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو انتہائی دکھ پہنچا اس کے باوجود سچے مسلمانوں کے نزدیک سعودیہ کی حفاظت عبادت اوربیش قیمت سعادت ہے۔ انتہاپسندی ،نفرت اورتعصب کی سیاست ڈونلڈ ٹرمپ اورنریندرمودی کے مائنڈ سیٹ سے آشکار ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ بظاہر عیسائی مگراندورنی طورپروہ ایک انتہاپسند یہودی ہے،ٹرمپ کی ایک بیٹی اعلانیہ طورپریہودی مذہب اختیارکرچکی ہے جبکہ ٹرمپ کے نزدیک ترین اورمعتمد افراد میں سے بھی زیادہ تر یہودی ہیں۔اقوام متحدہ کے ضابطہ اخلاق پرمسلمان ملکوں کے سواکوئی کاربند نہیں،مسلمانوں کو اسلام کی بقاء کیلئے اپناالگ سفرشروع کرنا ہوگا۔پروفیسر حافظ محمدسعید کی نظربندی سے یقینا ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندرمودی کوسیاسی فائدہ ہوگا۔حکومت کے اس عاقبت نااندیشانہ اقدام کوپاکستان کیخلاف استعمال کیاجائے گا۔
بھارت میں پروفیسر حافظ محمدسعید کی نظربندی پرخوب سیاست چمکائی گئی اورآنیوالے دنوں میں مزید پوائنٹ سکورنگ کی جائے گی ۔ پروفیسر حافظ محمد سعید کی نظربندی سے بھارت کے انتہاپسندہندوشیر ہوجائیں گے جبکہ تحریک آزاد ی کشمیر کے حامیوں کومایوسی ہوگی ۔پروفیسر حافظ محمدسعید کی نظربندی نے سیاسی طورپرنیم مردہ نریندرمودی کیلئے آکسیجن کاکام کیا ۔اوباما کے دورصدارت میں پاکستان اپنے پڑوسی بھارت کو پروفیسر حافظ محمدسعید پرمبینہ بھارتی چارج شیٹ کے سلسلہ میں ٹھوس شواہد کی فراہمی کیلئے کہتا رہامگربھارت کے پاس کچھ ہوتاتووہ فراہم کرتا ،پروفیسر حافظ محمدسعیدکی نظربندی سے پاکستان کے دیرینہ موقف اوراس کی سفارتی پوزیشن میں کمزوری آئی۔
پاکستان میںدکھی انسانیت کی خدمت کیلئے پروفیسر حافظ محمدسعید کی گرانقدرخدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ان کی نظربندی سے چاروں صوبوں میںفلاحی سرگرمیاں بری طرح متاثرہوں گی اورکئی ملین لوگ بنیادی ضروریات اورطبی سہولیات سے محروم ہوں گے۔ حکمران کس اقوام متحدہ کی بات کرتے ہیں،جس کی کشمیریوں کے حق میں قرارداد کوبھارت سات دہائیوں سے تسلیم نہیںکررہا ہے ۔معاشرے کے مختلف طبقات پروفیسرحافظ محمدسعید کی نظربندی پراپنے شدید غم وغصہ کااظہارکر رہے ہیں۔ پروفیسرحافظ محمدسعید کی نظربندی کافیصلہ عجلت میں کیا گیا ،ہماری ریاست اس مجرمانہ غفلت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔