تحریر : قادر خان افغان پاک سرز مین پارٹی نے کراچی میں اپنے” سیاسی جلسی” میں ایک مرتبہ پھر کراچی میں بے گناہوں کے قتل میں ملوث ٹارگٹ کلرز اور “را”ایجنٹس کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے مطالبات تسلیم کروانے کے حوالے سے حکومت سندھ کو ایک ماہ کا نوٹس بھی دے دیا۔ جیسے جیسے پاک سرز مین پارٹی میں ایم کیو ایم سے وابستہ تنظیمی ڈھانچے کے ذمے داران شامل ہو رہے ہیں ، مصطفی کمال کی باڈی لینگوئج اور تقریروں میں ماضی کی سیاست کا رنگ نمایاں نظر آتا جارہا ہے۔ کراچی کی حالت زار کے ذمے دار بلا شک و شبے ایم کیو ایم رہی ہے ، اس کو بھلایا نہیں جاسکتا۔کیونکہ پی ایس پی بننے سے پیشتر جو رہنما ایم کیو ایم میں تھے ، جو ذمے دار پارٹی میں شامل تھے ، اب ان میں ایک بڑی تعداد دو کشتیوں میں سوار ہوکر کبھی پی آئی بی جاتے ہیں تو کبھی پاکستان ہائوس میں نظر آتے ہیں۔
کراچی آج جو کھنڈرات کا ڈھیر بنا ہوا ہے تو اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں ؟۔کیا کبھی اس پر کسی نے غور کرنے کی تکلیف گوارہ کی ہے ؟، مصطفی کمال کو سابق صدر پرویز مشرف نے خزانے کھول کر سندھ کے دیہی آبادیوں کو نظر انداز کرکے اربوں روپوں کے فنڈز دیئے ۔ سڑکوں، اور فلائی اوور بنانے کا سلسلہ من پسند علاقوں میں شروع ہوا ۔لیکن تمام ترقیاتی کام اتنے ناقص اور غیر معیاری نکلے کہ چند سال بھی نہیں چل سکے ، بارش کے پہلے قطرے ہوں یا سیوریج کا پانی، سڑکیں یوں بہہ جاتی ہیں جیسے مٹی کے ڈھیر پر تارکول ڈال دیئے گئے ہوں ، اربوں روپیہ خرچ کرتے وقت معیار کا خیال نہیں رکھا گیا ۔ نئی سڑکوں کی تعمیرات میں سیوریج کے نظام کا خیال نہیں رکھا گیا ، مضافاتی علاقوں کو کیوںمکمل نظر انداز کر دیا گیا۔
73ارب روپے کے پیکج میں کراچی کی تمام مضافاتی آبادیوں کو لسانیت کے تعصب کی بنا پر نظر انداز کردیا گیاتھا ، ان کے چہتے گورنر (برطانوی شہری) ڈاکٹر عشرت العباد ان مضافاتی و کچی آبادیوں کو کراچی کا بد نما داغ قرار دیتے رہے ، آج اپنی تقاریر میں خود کو کراچی کے مسائل سے بری الزما قرار دیکر ، دیگر لسانی قوتوں کو احساس محرومی میں مبتلا کرکے کس طرح دل جوڑ نے کی بات سمجھ نہیں آتی ،اپنے بانی و روحانی باپ کو بُرا بھلا کہنے سے مختلف قومیتوں کے دلوں میں پیدا کرنے والی نفرتیں دور نہیں ہو رہی ۔ مصطفی کمال اینڈ کمپنی کے ساتھ ضرور کچھ ایسے افراد شامل ہوئے ہیں جو پہلے ایم کیو ایم میں نہیں تھے ، لیکن ان کے مفادات کیا ہیں ، یہ وقت کے ساتھ اظہر من الشمں ظاہر ہوتے چلے جائیں گے۔مصطفی کمال اینڈ کمپنی کی جانب سے سی پیک کیخلاف بیان نے بھی حیرت میں مبتلا کردیا کہ اپنے سنہری ترین دور میں سرکلر ریلوے سمیت اہم مفادات عامہ کے منصوبوں پر ان کی توجہ مبذول ہونے کے باوجود انھوں نے دور رس نتائج دینے والے کام نہیں کئے ، سالڈ ویسٹ منجمنٹ کے پروگرام کو کل وقتی مدت کے لئے چلایا ہی نہیں گیا۔ مئیر کراچی یہ دعوی کرتے ہیں کہ 8سالوں میں کراچی کا کچرا اٹھایا ہی نہیں گیا ۔ لیکن یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ان 8سالوں میں ان کے ایم پی اے ، ایم این اے اور سنیٹرز کیا کررہے تھے ۔ ان کے کھربوں روپوں کے فنڈز کہاں لگ رہے تھے ۔ کراچی کے لئے ان کے اپنے ایم پی اے ، ایم این اے اور سنیٹرز کراچی کو کھنڈرات ہوتے کیوں دیکھ رہے تھے۔
صرف بلدیہ عظمی کراچی کو مہرہ بنا کر کراچی کو کھنڈرات بنانے کی ذمے داری کسی دوسری جماعت پر یکطرفہ عائد کرنا ، ہضم نہیں ہوتا ۔ کراچی میں ایم کیو ایم جلسہ کرے تو ، کراچی والے وہاں بھی موجود ہوتے ہیں پاک، سر زمین والے اگر جلسہ کریں تو کراچی والے وہاں بھی موجود ہوتے ہیں ، دونوں کا رونا ایک ہی ہے کہ مئیر کراچی کو اختیارات دیئے جائیں ، دونوں کی ایک ہی تسبیح ہے کہ کراچی سے کچرا نہیں اٹھایا جارہا ، پانی کا صاف پانی میسر نہیں ہے ، مہاجر حقوق کی دونوں باتیں کر رہے ہیں ، اپنے بانی کو اب دونوں معمولی انداز میں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ، سخت ردعمل دینے سے دونوں کمپنیوں نے محتاط رویہ اختیار کرلیا ہے ۔، دونوں اپنے ٹارگٹ کلرز کو معصوم قرار دیکر راستے سے بھٹکا ہوا قرار دیکر بلوچستان کی طرز پر معافی کا اعلان کرتے ہیں ۔ بلوچستان میں تو فراری پھر بھی ، بھاری ہتھیاروں کے ساتھ قانون نافذ کرنے والوں کے سامنے خود کو حوالے کردیتے ہیں ، کیا دونوں جماعتوں نے ایسی کوئی مثال قائم کی ہے کہ ان کی جماعت کے سنگین جرائم پیشہ اور بے گناہوں کے خون سے لبریز درندوں نے ازخود کبھی قانون نافذ کرنے والوں کے حوالے کیا ہو، پاک سر زمین پارٹی تو ڈرائی کلینگ مشین بنی ہوئی ہے ، لیکن کیا کبھی جیلوں سے ان کے موقف کی تائید میں کسی ٹارگٹ کلر یا جرائم پیشہ یا را کے ایجنٹ نے اعتراف جرم کیا ہے کہ وہ بہکاوے میں آگیا تھا ۔ رحمان بھولو ، بھولا بھالا ، پہلے تو روتے روتے اعتراف جرم کرلیتا ہے ، بعد میں اپنے بیان سے منکر ہو جاتا ہے۔
Farooq Sattar
مصطفی کمال اینڈ کمپنی اور فاروق ستار اینڈ لمٹیڈ ایک ہی مفروضے پر کام کررہے ہیں ، پاکستان کا جھنڈا لہرانے سے پاکستان کی محبت ، دل میں نہیں آجاتی ، جب کہ پاکستان کا جھنڈا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال ہو رہا ہو ، اصل حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے جھنڈے کو سیاسی بنا کر اس کی قدر وقیمت گرانے کی کوشش جاری ہے ، اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے سنیما گھروں میں بھارتی فلم چلانے سے پہلے پاکستانی ترانہ لگایا جاتا ہے ۔ دیکھتے بھارتی فلم ہیں ، لیکن ترانہ پاکستانی ہوتا ہے ، ان چہروں پر پڑے نقاب کو اتارنا ہوگا ۔ سی پیک منصوبہ ایک گیم چینجر عالمی منصوبہ ہے ، مصطفی کمال اینڈ کمپنی نے سی پیک پر اعتراض کرکے بھونڈا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔ ایک کروڑ بچے معذوروں کی تعداد تو ان کو یاد ہے ، لیکن ان کو یہ یاد ہے کہ ان کے بھولے بھالے بھٹکے ہوئے کارکنان اور حماد صدیقی نے 1980سے لیکر2015تک کتنے خاندانوں کو تباہ و برباد کیا ، کتنے معصوم بچے اپنے گھروں کے کفیل سے محروم ہوگئے ، کیا انھیں یہ یاد ہے کہ ان کے بھولے بھالے بھٹکے ہوئے کارکنان اور حماد صدیقی کی وجہ سے کتنی بیٹیاں اور بہنیں سہاگ کا جوڑا نہیں پہن سکیں۔
بھولے بھالے بھٹکے ہوئے کارکنان اور حماد صدیقی کے پیروکاروں سے تو ان کی بیویوں جیلوں میں جاکر طلاق نامے لے کر دوسری شادی کر لیتی تھی ۔ کیا اُن خواتین کی تعداد نہیں بتائیں گے کہ کتنے بھولے بھالے بھٹکے ہوئے کارکنان اور حماد صدیقی کے پیروکاروں نے جیلوں میں بیٹھ کر اپنے بیویوں کو طلاق دی ہے ۔ آخر انھوں نے اپنے اُن حلف یافتہ شوہروں سے طلاق کیوں لی ، کیا کبھی اس بات پر غور کیا ہے۔ مصطفی کمال اینڈ کمپنی اور فاروق ستار اینڈ لمٹیڈ پر کراچی کی عوام اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے ، موجودہ میئر کراچی کا رویہ وہی ہے جو مصطفی کمال کا ہوا کرتا تھا ۔ یہ ضرور ہے کہ ان سے نفرت کرنے والوں کی تصاویر اُن علاقوں میں ضرور لگیں ہیں ، جہاں ہر گلی سے ایک جنازہ ضرور اٹھا ہے ، کاش کہ نفرت سے بھرے اُن لفظوں کو میں اپنے قلم سے اتار کر اس کا آئینہ بنا کر انھیں اپنا چہرہ دوبارہ دیکھنے کا مطالبہ کرتا ، ان کے ہاتھوں میں رنگے بے گناہوں کے خون کو یہ کبھی نہیں دھو سکیں گے۔ کیونکہ ظلم جب بڑھتا ہے تو آسمان بھی رو پڑتا ہے اور چیختیں مائوں ، بہنوں ، سہاگنوں کے سینہ کوبی اور روتی چیختی چلاتی صدائیں نہیں سنی ہونگی ۔ کراچی والے تو سمجھے تھے کہ شائد اس بار کوالٹی دیکھیں گے ، لیکن آپ تو کونٹیٹی کو ہی مینڈیٹ مانتے ہیں۔