معاشرے میں پھیلی دقیانوسی سوچ

Society

Society

تحریر: تیمور لون
سوشل میڈیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ {فیس بک} کتاب چہرے کے ایک دوست کی جانب سے شیئر کی جانے والی پوسٹ دیکھی جس میں ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی خاتون نے ایک ایسی قمیض پہن رکھی تھی جس پر قرآنی آیات لکھی صاف دیکھی جا سکتیں تھیں۔ اس پر خاتون کی سیاسی پارٹی کے کارکنان کی جانب سے اس کا دفاع کیا جا رہا جبکہ مد مقابل سیاسی جماعت کے کارکنان مفتی بن کر اس پوسٹ پر اپنے فتوے جھاڑ رہے ہیں اگر یہ عمل مخالف پارٹی کے کسی فرد کی جانب سے ہوا ہوتا تو بھی ایسا ہی ہونا تھا اور اس جانب سے دفاع کرنے والے دوسری جانب فتوہ ساز فیکٹری کی جانب سے فتوہوں میں لپیٹ کر ماٹر گولے داغے جاتے۔ کچھ لوگ اس پوسٹ پر بڑی حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں حالانکہ یہ پوسٹ اس سے پہلے بھی کئی بار شیئر کی جا چکی ہے لیکن اس بار پانامہ کی وجہ سے احداف میں اضافہ کیا جا رہا ہے تا کہ کسی نہ کسی طرح دوسروں کو نیچا دکھایا جا سکے ۔ لیکن مرا موضوع پانامہ نہیں یہ تو راست میں آگیا۔

خیر تمام احباب سے گزارش ہے کہ ہمیں بخوبی آگاہ ہیں کہ ہم اس معاشرہ سے تعلق رکھتے ہیں جہاں عورت کے حاملہ ہونے کا پتہ چلتا ہے تو پیر صاحبان اور عامل حضرات کی جانب سے قرآنی آیات کا تعویز بنا کر دیا جاتا ہے جسے حاملہ لڑکی کی رانوں پر اولاد نرینہ کی { یا کسی بھی اور } غرض سے باندھا جاتا ہے ۔ تب یہ بھی سوال اٹھنا چاہئے کہ ملا کا ایمان وہاں کیوں نہیں ٹھاٹیں مارتا یا تب اس عوام کا ایمان کہاں سویا ہوتا ہے۔ آپ نے بارہا دیکھا ہو گا قرآنی آیات سے بھری چادریں قبروں پر چڑھائی جاتی ہیں جو کچھ عرصہ میں بوسیدا ہو کر چیتھڑے ہو جاتی ہیں اور بعد میں قبرستان کے کونے کھدروں میں پائی جاتی ہیں جہاں جانوروں کی غلاظت بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

قارئین سے یہ بھی گزارش ہے کہ ہر چیز اوریا آنکھ سے نہ دیکھا جائے بلکہ اگر آپ نے آواز اٹھانی ہی ہے تو اپنے بوسیدہ سوچ کے خلاف اٹھائی جائے جو ہمارے معاشرے میں رواج کا ناسور بن کر ہمیں کھوکھلا کر چکی ہے، تب ہم ان کے لباس پر بات کرسکتے ہیں اور اس قسم کی حرکات پر بین بھی لگوا سکتے ہیں۔

میری ذاتی رائے کے مطابق کپڑوں کے کاروباریوں کی ان حرکتوں پر پابندی عائد کی جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان قبروں کی چادرون اور عورتوں کی رانوں سے بندھے تعویزوں کی روک تھام کے لئے بھی کچھ کیا جائے۔

اگر ہم نے اپنے مذہب سے محبت کا اظہار کرنا ہی ہے تو صرف ان جسموں سے آیات لکھی تحریروں والے کپڑے نہ اتارئے بلکہ اس معاشرہ میں پھیلی دقیانوسی سوچ کو بھی تبدیل کیجئے اور ذہنوں پر پڑی گرد کو جھاڑئے ،سر پر بندھی لوہے کی ٹوپییوں کے تالے توڑئے اور چمڑے میں لپٹے مشکل کشاوں کی بھی گرہیں کھولنے میں بھی اپنا کردار ادا کیجئے۔

Taimoor Lone

Taimoor Lone

تحریر: تیمور لون