واشنگٹن (جیوڈیسک) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین، بلاول بھٹو زردای نے کہا ہے کہ پارٹی 2018ء کے عام انتخابات میں قومی سطح پر کامیاب ہو کر مخالفین کو حیران کرنے کا حوصلہ اور یقین رکھتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ گذشتہ انتخابات میں انتہاپسندی و دہشت گردی عروج پر تھی، اور سازگار مساوی مواقع میسر نہ آنے کے نتیجے میں، غیر تسلی بخش انتخابی نتائج برآمد ہوئے، جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عوام کا پارٹی سے رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ مخالفین جب پیپلز پارٹی کے بارے میں رائے دیں، انھیں ذہن نشین کرلینا چاہیئے کہ پارٹی ماضی میں بھی بے تحاشہ آزمائشوں کو حوصلہ مندی، مدبرانہ سوچ اور لگن کے ساتھ سر کر چکی ہے۔ ہم اب بھی مخالفین کو حیران کرنے کا حوصلہ اور طاقت رکھتے ہیں۔
انھوں نے یہ بات جمعے کی شام اپنے دورہ امریکہ کے اختتام پر سینیٹر خواجہ اکبر کے گھر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی، جس موقعے پر اُن کی ہمشیرہ، بختاور اور سینیٹر شیری رحمٰن بھی موجود تھیں۔
بلاول نے کہا کہ ‘ضرب عزب’ میں پاکستان فوج اور عوام کی قربانیوں کے نتیجے میں انتہاپسندی کی شدت میں واضح کمی آئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ پارٹی کی اساس ترقی پسند فکر، جمہوریت کو پروان چڑھانے کا عزم، عوامی امنگوں سے ہم آہنگی، محب وطن قیادت اور ملک و قوم کے لیے قربانیوں کی بنا پر پیپلز پارٹی کو ایک امتیاز حاصل ہے۔ بقول اُن کے، ہم محض ماضی میں مگن نہیں، بلکہ عصرِ حاضر کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھنے کی فکر رکھتے ہیں۔
اس سے قبل، انھوں نے کمیونٹی کے نامور افراد سے ملاقات کی جن نامور دانشور، ڈاکٹر، نئی نسل کے نمائندے، کمپیوٹر ماہرین اور وکلا شامل تھے۔
ڈاکٹر اکبر ایس احمد نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دورہ اقتدار کے زمانے میں لاہور میں چوتھی اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرکے اور پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ”قابلِ رشک تاریخی کردار ادا کرکے اپنا لوہا منوایا”۔ اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ”مثبت اعلیٰ سطحی بڑے اہداف” کے حصول کی کوشش کی جائے۔
اپنے کلمات میں، ڈاکٹر ذوالفقار کاظمی نے چیرمین پیپلز پارٹی سے کہا کہ بھٹو صاحب اور بےنظیر بھٹو نے دلیری کے ساتھ حکمرانی کی؛ بلند خیالی اور محب وطن ترقی پسند سوچ کو اجاگر کرکے جمہوری اقدار کو سربلند کیا۔ اُنھوں نے کہا کی ضرورت اس بات کی ہے کہ ”قابلِ تقلید دلیرانہ قیادت کے ورثے کے نقشِ قدم پر عمل کیا جائے، چونکہ، بقول اُن کے،بغیر یہ انداز اپنائے، پارٹی کو تقویت اور جِلا نہیں بخشی جا سکتی۔
ڈاکٹر کاظمی نے تجویز پیش کی کہ عصر جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضرورت اِس بات کی ہے کہ نئے، روشن اور باصلاحیت ذہنوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ اِس ضمن میں، اُنھوں نے تجویز دی کہ ”مائنڈ کنسورشیم” بنایا جائے، ”جس کے لیے بیرونِ ملک باصلاحیت، با ہنر اور خدمت سے سرشار ذہنوں کو تلاش کرکے اکٹھا کیا جائے، چاہے وہ مشرق بعید میں ہوں، یا امریکہ یا مغرب میں”، تاکہ ملک میں ٹیلنٹ کی نئی تازگی آئے۔
خان ادریس کے بقول، پیپلز پارٹی کو ”ہر دور میں مشکلوں سے گزرنا پڑا ہے”، لیکن یہ پارٹی اپنی اساس قائم رکھنے کا ”جہدِ مسلسل” کرتی آئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ”گذشتہ انتخابات میں پارٹی کو انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی، ساتھ ہی، یہ بھی حقیقت ہے کہ پارٹی کا ریکارڈ زیادہ بہتر نہیں تھا”۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ نوجوانوں کا دور ہے؛ اور تجویز دی کہ 25 سے 30 برس کی جوان آبادی کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور اپنے ساتھ رکھنے کے لیے، پارٹی کو جستجو کرنی ہوگی، جس کے لیے ایک واضح پروگرام درکار ہے۔
منصور قریشی نے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی نیوز چینیلز پر انٹویوز کا سلسلہ شروع کیا جائے اور ملکی اور علاقائی امور کے علاوہ مسلم دنیا کے معاملات پر بھی گفتگو کی جائے۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں سے یہ شکوہ کیا جاتا ہے کہ وہ اِن دِنوں مسلمان ملکوں کے مہاجرین کو پناہ دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار لگتے ہیں، ”کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ مسلمان ملکوں کا اپنا طرزِ عمل کیا ہے؟ کیا ہم اپنا فرض پورا کر رہے ہیں؟ ہمیں خود احتسابی پر عمل پیرا ہونا ہوگا”۔ اس ضمن میں، اُنھوں یاد دلایا کہ پاکستان نے ماضی میں کئی دہائیوں تک افغان مہاجرین کو نہ صرف پناہ دی، بلکہ حتی الوسع، امداد کے کام میں مدد دی۔
پاک-امریکہ تعلقات کے حوالے سے، اُنھوں نے کہا کہ دونوں طرف کی سوچ وقتی نہیں ہونی چاہیئے، بلکہ طویل المدتی تعلقات استوار کرنے میں خصوصی دلچسپی لینی چاہیئے۔ ایک سوال پر، اُنھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں پاکستان-امریکہ تعلقات میں بہتری آئے گی۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ‘نیشنل ایکشن پلان’ پر دلجمعی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔