تحریر : انجینئر افتخار چودھری پانچ فروری آیا اور آ کر چلا گیا برادر خالد گردیزی نے کہا تھا کہ اس موضوع پر لکھوں لیکن ذاتی مصروفیات اتنی تھیں کہ وقت نہیں نکال سکا۔کل ہی لاہور میں بیٹے کی نکاح کی تقریب تھی ۔عمر کا وہ حصہ ہے دس گھنٹے کے سفر کے بعد بیس گھنٹے آرام کرنا پڑتا ہے۔ ۔ابھی بھی پانچ فروری کے ختم ہونے کو ایک گھنٹہ باقی ہے (اب تو چھ ہو گئی ہے)۔سوچا اپنا حصہ ڈال دوں میری نظر میں موجودہ صورت حال میں کشمیر کے مسئلے پر ہمیں سر جوڑ کر بیٹھناہو گا ۔جس وقت نہرو اقوام متحدہ میں میں قرارداد لے کر گئے اس وقت اور موجودہ وقت میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔اس زمانے میں پاکستان کے قبائلی علاقے کے عوام، ہزارہ کے جانفروش بھارتی حمائت یافتہ ڈوگرہ راج کے خلاف اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کو پہنچے ۔جہاد کی پہلی گولی جناب سردار عبدالقیوم نے نیلا بٹ کے مقام پر چلائی تھی۔ضرور چلائی ہو گی لیکن ان کے ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور خاص طور پر ہزارہ کے لوگوں کی لٹھ بھی شامل تھی ۔در اصل میرے نزدیک یہ بات اس وقت مناسب نہیں ۔ان حالات میں کشمیریوں کو انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ کہنا مناسب نہ ہو گا کہ ہمیں چھوڑ دیجئے کوئی حافظ سعید ہماری مدد کو نہ آئے کوئی پاکستانی ہمیں نہ سنبھالے ہاتھ جھٹکنا کہاں کا انصاف ہے۔ویسے بھی یہ بات کتنی نا معقول ہے کہ کشمیر کی اصل قیادت جو علی گیلانی کی زیر قیادت ایک مدت سے لڑائی لڑ رہی ہے وہ تو کہے کہ پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الاللہ ۔وہاں پاکستانی پرچم کو لہرایا جائے وانی شہید ہو تو دنیا پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے پاکستان کے پرچم میں لپٹ کر دفن ہو اور لاکھوں کا مجمع کسی کی مدد کے بغیر میدان میں ہو ایسے میں چل پیچھے ہٹ کسی طور مناسب نہیں۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ہندوستان کو پتہ چل گیا ہے کہ اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے مسئلے کا حل سامنے آتا ہے تو کشمیر اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
اسی لئے نئے ڈاکٹرائن کے مطابق وہ ان کشمیریوں کے اوپر ہاتھ رکھ رہا ہے جو خود مختار کشمیر کا نعرہ لگا رہے ہیں۔پنجابی میں کہتے ہیں ۔نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے (نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے) یاد رہنا چاہئے کہ جب پاکستان کی تحریک شروع ہوئی اس وقت سے کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ قرار دیا گیا تھا بد قسمتی یہ ہے کہ ہم چودھری رحمت علی کو قومی ہیرو نہیں مانتے مگر ان کے دیئے گئے نظرئے اور سوچ کو اپناتے ہیں۔چودھری صاحب نے ١٩١٥ میں کہا تھا کہ مسلمانوں کو ہندوئوں سے الگ ہو جانا چاہئے اپنے دریائوں کے سوتے پاکستان کے پاس ہونا چاہئے۔وہ عظیم لیڈر تھے۔ معاف کیجئے گا یہ تاریخ کا ایک اور جھوٹ ہے کہ نظریہ پاکستان علامہ اقبال نے دیا تھا۔اقبال کو ایک پاکستان تک محدود کر کے در اصل اقبال سے دشمنی کی جا رہی ہے وہ حکیم الا امت تھے اور امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ کے لئے سوچا کرتے تھے۔ایسا حکیم جو رات کی تاریکیوں اور آخری لمحات سے اللہ تعالی سے اسلام کی برتری کے لئے دعائیں مانگتا تھا اسے ہم نے چھوٹو بنا کر خالق نظریہ پاکستان قرار دے دیا ہے۔مجھے کہنے دیجئے کہ اقبال سی پیک کے بانی تھے وہ کاشغر سے نیل کے ساحلوں کو جوڑنے کی بات کیا کرتے تھے۔ایک نظریاتی سی پیک جو اسپانیا کی مسجد قرطبہ میں سوچا گیا۔
نہیں یہ شان خود داری چمن سے توڑ کر تجھ کو کوئی دستار میں رکھ لے کوئی زیب گلو کر لے ہاں چونکہ ان کا وجود بر صغیر میں تھا اس لئے وہ یہاں کی سیاست کو پر بھی نظر رکھتے تھے۔نظریہ پاکستان کی بات مولانا شبلی نے بھی کی لیکن اصل خالق نظریہ پاکستان چودھری رحمت علی تھے۔ کشمیر کا یہ بیٹا امت مسلمہ کی خوابیدگی کا داعی تھا۔اسے خدا را رومی،مارکس،لینن،گوئٹے کی صف میں ہی رہنے دیجئے گا۔اقبال کو چھوٹا نہ کریں۔ یہ کہنا کہ کشمیریوں کی جدوجہد خالصتا کشمیریوں کی ہے میں سمجھتا ہوں یہ بہت بڑی زیادتی ہو گی۔یہ ذہن میں رکھ لیجئے کہ کشمیر تقسیم پاکستان کا ایک نا مکمل ایجینڈہ ہے کشمیریوں نے حق رائے شماری ملنے کے بعد پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہونا ہے۔تقسیم کے وقت یہی طے ہوا تھا۔ اسی بھی بات ہونی چاہئے یہی مطالبہ کرنا چاہئے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ حق رائے شماری کا نام لینے سے کشمیریوں کی انا کو چوٹ لگتی ہے اور نوجوان کشمیری یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس بات پر مجبور کیوں ہے اسے تیسرا آپشن کیوں نہیں دیا جاتا۔
United Nations
یقین کیجئے الحاق پاکستان کی آواز کو کمزور کرنے کے لئے بھارت اپنی کوششیں تیز کر رہا ہے۔پاکستان ک طرح اپنا پرانا مو ء قف واپس لے سکتا ہے۔خود تو بھارت اقوام متحدہ میں جانے سے رہا۔لہذہ اس نے ایک نئی چال چلنے کی کوشش کی ہے۔اسے یہ علم ہے وہ کشمیر کو غلام نہیں رکھ سکتا۔اسی لئے وہ کشمیریوں کو ایک نیا لولی پاپ دے رہا ہے۔اس بات میں کشش تو ہے کہ کشمیری ایک الگ وطن کا خواب دیکھے اور اپنے آپ کو پاکستان سے الگ رکھے ۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ کشمیریوں کو کسی طور بھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ہم غیر کشمیری دیکھ لیجئے پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیریوں کی قیادت میں جی رہے ہیں ۔ہم غیر کشمیریوں کے ساتھ کشمیری بھی آ جائیں ویسے بھی آزاد کشمیر میں تو حکومت ہی ایک کشمیری کی ہے جو لاہور میں ہیں۔آپ بھی آ جائیںیہ الگ بحث ہے کہ ہماری زندگی کیسے گزر رہی ہے۔لیکن لاہور گجرانوالہ سیالکوٹ کے بٹوں کی پاکستان میں واہ واہ ہے۔آپ ایک الگ ملک کیوں چاہتے ہیں؟ہم جو آپ کے محکوم ہیں۔
ایک اور بات بھی یاد رکھئے پاکستان کے وجود کے ساتھ ہی دنیا اس کی دشمن بن گئی تھی یہ جو لوگ امریکہ میں صدر ایوب کے والہانہ استقبال کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کی دنیا بھر میں قدر تھی۔ضرور ہو گی لیکن اس زمانے کے حالات دیکھئے دنیا اس وقت دو طاقتوں کی تھی ایک روس تھا اور دوسرا امریکہ ۔ہر ملک کو دانہ ڈالا جا رہا تھا اسی زمانے میں دوسرے چھوٹے ملکوں کے صدور اور وزرائے اعظم کی آئو بھگت ہوا کرتی تھی۔جب سے روس ٹوٹا ہے امریکہ آنکھیں نکالنے لگا ہے۔میں تو ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کو ان محکوم اور پسے ہوئے لوگوں کے لئے ایک خوشخبری سمجھتا ہوں جو امریکی استبداد کا شکار ہیں۔اس کی پالیسیاں امریکہ کو لے ڈوبیں گے دونوں صورتوں میں امریکہ اب دنیا بھر کے لوگوں کے لئے ایک بہتر ملک ثابت ہوگا۔اگر اس کے عظیم لوگ جیت گئے تو دنیا بہتر ہو جائے گی یا ڈونلڈ کی کامیابی کی صورت میں امریکہ تنہا ہو جائے شائد اسے امریکہ کا گوربا چوف بھی کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان اس وقت ایک ایسے دو راہے پر کھڑا ہے کہ اس کی اندرونی حالت نے اسے ایک سرخیل ملک کی بجائے ایک محکوم ملک بنا دیا ہے۔اس کی اپنی نالائقیاں اتنی ہیں کہ وہ ہمہ وقتی وزیر خارجہ سے بھی محروم ہے۔یاد رہے کسی بھی ملک کا وزیر خارجہ دوسرے ملک کے وزیر خارجہ تک رسائی کر سکتا ہے کوئی مشیر نہیں۔لہذہ پاکستان اس وقت اپنا کیس ہار رہا ہے۔اس کے اپنے اسلامی ملک جو کبھی پاکستان کے ہی نہیں کشمیری لیڈروں کی بات کو بھی دل و جاں سے مانتے تھے آج ہندوستان کے لئے اپنی منڈیا کھولنے پر مجبور ہیں۔تازہ مثال سعودی عرب کی ہے۔میں نے سردار عبدالقیوم صاحب سے پوچھا کہ ہمارے سعودی عرب سے تعلقات کی کیا نوعیت تھی ان کا کہنا تھا مجھے خود ملک فیصل شہیدنے کہا کہ عبدالقیوم آپ ہمیں بتائیں کہ ہماری کشمیر پالیسی کیسی ہونی چاہئے۔دکھ تو یہ بھی ہے کہ سردار عبدالقیوم صاحبزادہ اسحق ظفر سردار ابراہیم جیسے پہاڑ لوگوں کی جگہ ہمارے کشمیری بھائیوں نے ایسے لیڈر چنے جو برادری ازم سے باہر ہی نہیں نکل سکے۔ میری اس موقع پر یہی گذارش ہے کہ کشمیری یک سو ہو کر جد و جہد آزادی کا حصہ بنیں۔اور حق رائے شماری کا مطالبہ کریں۔اور الحاق پاکستان کی آواز کو مضبوط کریں۔رہی بات آپ کی تکلیفوں کی تو اس کا احساس علی گیلانی کو مجھ سے اور آپ سے زیادہ احساس ہے ۔انہی کی مان لیں۔ توڑ اس دست جفا کیش کو یا رب کہ جس نے روح آازدی ء کشمیر کو پامال کیا