اسلام آباد (جیوڈیسک) سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس میں جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے ہیں کہ جو کام اداروں کے کرنے کا تھا وہ کمیشن نے کیا، اداروں اور حکومتوں کے کام اگر جج کریں گے تو پیچھے کیا رہ گیا۔
اس کیس کی سماعت میں شرمائیں گے نہیں۔ وزیر داخلہ کے اعتراضات پر بار کونسل کو جواب اور وزیر داخلہ کے وکیل کو رپورٹ کی تیاری میں استعمال مواد فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
سپریم کورٹ میں سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے وزیر داخلہ کے وکیل مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ کیا آپ کوکمیشن کی اتھارٹی پر اعتراض ہے؟۔ مخدوم علی خان نے جواب دیا بالکل نہیں کچھ آبزرویشن پر اعتراضات ہیں۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے اداروں اور حکومتوں کے کام اگر جج کریں گے تو پیچھے کیا رہ گیا، یہ کام ججز کے کرنے کا نہیں نا ان کی ذمہ داری میں شامل ہے۔
مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ وزیر داخلہ سے ملاقات کرنے والی دفاع پاکستان کونسل کالعدم تنظیم نہیں اور انکے ہمراہ آنے والے مولانا احمد لدھیانوی کی آمد سے وزیر داخلہ لا علم تھے۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے وزارت اور شخص کے درمیان فرق کرنا ہوگا، ہم اس کیس کی سماعت میں شرمائیں گے نہیں، جو کام اداروں کے کرنے کا تھا وہ کمیشن نے کیا۔ اگر منسٹری فائنڈنگ چاہتی ہے تو وہ پہلےسے مزید سخت بھی ہوسکتی ہیں۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ دیکھتے ہوئے اگر ہم وزیر داخلہ سے متعلق کمیشن کی فائنڈنگز نرم کردیں تو کوئی اعتراض ہے؟ آپ مجاز اتھارٹی سے بات کرلیں۔
وزارت داخلہ کے اعتراضات پر جواب داخل کرنے کے لئے بار کونسل کے وکیل حامد خان نے عدالت سے وقت مانگ لیا۔
اس قبل ایڈووکیٹ جنرل ہائی کورٹ نے عفالت کو بتایا کہ کمیشن کی سفارشات کے مطابق ذمہ داران کو15 جنوری کو برطرف کیا تھا 3 افسران آرڈر کے خلاف مختلف فورم پراپیل میں چلے گئے، ہائی کورٹس عبوری ریلیف کیسے دے سکتے ہیں۔
عدالت نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، 4 ذمہ دار افسران کو سپریم کورٹ نے طلب کرلیا۔ کیس کی سماعت 15دن کے لیے ملتوی کر دی گئی۔