اسلام آباد (اقبال کھوکھر) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق پر مشتمل سنگل بینچ نے مسیحی شہریوں کے نام پر شراب کی قانونی فروخت کے حوالے سے درخواست کی سماعت ابتدائی دلائل سننے کے بعد مجوزہ درخواست کو جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت میں منتقل کردیا۔
منتقلی احکام جاری کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسی ہی ایک درخواست جسٹس محسن اخترکیانی کی عدالت میں زیرسماعت ہے تو دونوں درخواستوں کے یکجا ہونے سے بہتر سماعت کے ذریعے واضح اور بہتر فیصلہ دیاجاسکتا ہے۔
اس سے قبل درخواست گزار پاکستان یونائیٹڈ کرسچن موومنٹ کے چیئرمین البرٹ ڈیوڈ کی طرف سے پاکستان میں شراب کی فروخت کو قانونی حیثیت دینے کے خلاف ان کے وکیل ماجد بشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کی دفعات 37H کی وضاحت کی جائے کہ ایک اسلامی ملک میںکس طرح مذہبی بنیادوں پر شراب جیسی حرام شے کوقانونی حیثیت دے کر انہیں مسیحی مذہب کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔
عدالت عالیہ میں دخواست کی سماعت کے بعد پاکستان یونائیٹڈ کرسچن موومنٹ کے چیئرمین البرٹ ڈیوڈ نے ”عوامی محبت”سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شراب کے استعمال اور اس کی فروخت کومذہبی بنیادوں پر مکمل طور پرپاکستان میں پابندی عائد کی جانی چاہئے کیونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے دفعہ 37Hکی آئینی وضاحت مانگی ہے کہ کس طرح مذہبی بنیادوں پر”اسلامی جمہوریہ پاکستان”میںشراب پینے کی قانونی حیثیت میسر ہے۔انہوں نے کہا کہ مسیحیت سمیت ریاست کاکوئی بھی مزہب شراب کی اجازت نہیں دیتا۔اور مسیحیت میں تو شراب کی سخت ممانعت ہے اور اس حوالے سے تعلیم پر بھی پابندی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کچھ دوسرے ممالک میں شراب کی کھلے عام تجارت ہوتی ہے تو اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ مذہب اس کی اجازت دیتا ہے۔یادرہے کہ عدالت عالیہ میں زیرسماعت اس پٹیشن کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے اور سیاسی وسماجی حلقوں میں اس کے فیصلے پر نگاہ رکھتے ہیں۔