تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر 5فروری کو پورے ملک میں سیاسی پارٹیوں اور سماجی تنظیموں کی طرف سے یوم یکجہتیء کشمیر رسمی جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا ۔ ملک بھر میں مقبوضہ کشیر پر بھارتی تسلط کے خلاف اپنے کشمیری مسلمان بھائیوں سے یکجہتی کے اظہار کے لئے بہت سی تقاریب کا بھی اہتمام کیا گیا مگر مقام حیرت ہے کہ ہماری حکومت نے بڑے دلفریب اور انوکھے انداز میں کشمیر کے حریت راہنمائوں اور بھارتی حکومت دونوں کو ہی خوش رکھنے کے لئے خوبصورت طریقے سے سیاسی کھیل کھیلا ۔مختلف شہروں میں حکمران پارٹی کے ایم این ایز ،ایم پی ایز ،اور وزراء صاحبان نے کشمیری مسلمانوں کے حق خود ارادیت کے حق میں بڑے بڑے سیاسی بیان داغے کہیں یہ کہا گیا کہ ہم شہدائے کشمیر کے خون کو بھولے نہیں شہداء کا خون ضرور رنگ لائے گا اور بھارت کا غاصبانہ قبضہ ختم ہو کر رہے گا آزادی کا نا مکمل ایجنڈا کشمیر کی آزادی کے ساتھ ہی تکمیل پائے گا مگر دوسری طرف مودی کے یارانے میں بھی دراڑ نہیں آنے دی گئی ۔جہاں یوم یکجہتی کشمیر پر ریلیاں نکالی گئیں وہیں ہماری محب وطن حکومت نے کمال بہترین انداز میں کشمیری شہداء ،لائن آف کنٹرول کے قریبی شہادت کے مقام پر فائیز ہونے والے پاکستانی شہریوں ،سرحدوں کی حفاظت پر مامور پاک فوج کے شہداء اور انڈین آرمی کی آئے روز کی ایل او سی پر دراندازی اور بلا اشتعال گولہ باری کو یکسر پس پشت رکھ کر ہندوستانی ثقافت کی پروموشن کا فریضہ بھی اپنے ہاتھوں انجام دے ڈالا۔
تین بھارتی فلموں کو این او سی جاری کر کے خون شہداء کو ہدیہء قیدت پیش کیا گیا ۔ہندوستانی فلمیں پورے طمطراق کے ساتھ پنجاب کے سنیما گھروں کی زینت بنا دی گئیں کیا خوب یاد رکھا شہداء کے خون کو ۔آپ کی ریلیاں تو پھر ایسے ہی ہوئیں نا جیسے اسمبلی میں سیاسی بیان ۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ہر محاذ پر ہم ہندوستان کا مکمل بائیکاٹ کرتے خواہ وہ تجارتی ہو یا ثقافتی پھر تو ہوتی کشمیر کے ساتھ یکجہتی ،یہ کس قسم کی یکجہتی ہے کہ گلی گلی میں شور برپا کرتے رہے تمام دن صرف چند گھنٹوں کی یکجہتی کشمیر یوں کے ساتھ اور کابل ، اے دل ہے مشکل ،اور رئیس کو نمائش کی اجازت دے کر معاشی طور پر ہندوستان کی خیر خواہی کا موقع بھی ہاتھ سے نا جانے دیا یہ تو بالکل اسی طرح ہوا کہ شب کو مے خوب سے پی صبح کو توبہ کر لی رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
ایک طرف تو ہم کہتے نہیں تھکتے کہ بھارتیو کشمیر سے نکل جائو اور دوسری طرف کھلے دل کھلے ذہن کے ساتھ انیہ بھارتیوں کا فلموں کی صورت میں استقبال بھی کر رہے ہیں خدارا کچھ ہوش کے ناخن لو جز وقتی مسلمان بننے کی بجائے کل وقتی صاحب ایمان کے سانچے میں ڈھال لو اپنے پیکر کو ۔آخر ہماری کونسی ایسی مجبوری ہے کہ ہندوستان کا روز روشن کی طرح عیاں ظالمانہ چہرہ دیکھنے کے باوجود ہم اسکا مکمل طور پر بائیکاٹ کرنے سے قاصر ہیں ؟مودی سرکار ہمیں ہر میدان میں تنہا کرنے پر عمل پیرا ہے اور ہم ہیں کہ پتہ نہیں وہ کونسا احسان ہے جس کے بوجھ تلے دبے اس کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے کی جراء ت یا جسارت کرنے کی ہمت نہیں کر رہے ؟ ہندوستان ہمارا ہی نہیں بلکہ مسلم امہ کا ایسا بد ترین دشمن ہے جو کہیں بھی مسلمانوں سے دشمنی کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔ہندوستان آئے دن ہماری سرحدوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرے اور ہم اسکی رئیس دیکھیں ؟؟؟ وہ لاکھوں کشمیریوں کی جانوں سے کھیلے ،وہ گولیوں کی بارش کر کے بیگناہ کشمیریوں کو بصارت سے محروم کرے اور ہم کابل کی صورت میں اسے قابل تسلیم کر لیں ؟؟؟ وہ نت نئے ہتھکنڈوں سے پاکستان کو نیچا دکھانے کے درپے ہو اور ہم اس کے خلاف بیان تک نہ دیں اے دل ہے مشکل ،کی صورت میں اسے کچھ کہنے کی ہمت بھی نہ دکھائیں ؟؟؟۔ دوغلی پالیسیاں خدا کے لئے چھوڑ دو یا تو کشمیر کے لئے ریلیاں نہ نکالو ،یا پھر اس بد ترین دشمن کے ثقافتی ریلے کے آگے بند باندھو کھل کر بات کرنے کی اخلاقی جراء ت تو کرو یا کشمیریوں کے خون نا حق کی طرف داری چھوڑ دو یا مودی سرکار کی اطاعت سے باہر نکل آئو۔
Indian Culture
بحثیت مسلمان قومی غیرت و حمیت کی سودے بازی کرنا کہاں کی دانشمندی ہے ؟ہندوستانی ثقافت پہلے ہی ہماری نسلوں کی ب بہا تباہی کر چکی ہے رہی سہی کسر بھی شائید آپ نکالنا چاہتے ہیں کہ اخلاقیات کا مکمل طور پر جنازہ نکل ہی جائے ۔ہندوستان کو کاروباری بڑ ھوتری میں مدد فراہم کرناکیا اسے کہتے ہیں شہیدوں کے خون سے وفا ؟؟یہ جو وزراء کا لائو لشکر پورے جوش و جذبے سے پانامہ پانامہ پانامہ کے دفاع کے لئے بیانات دے دے کر ہلکان ہو رہے ہیں انہوں نے کبھی ہندوستان کے خلاف کوئی ایک بیان بھی دینے کی ہمت کی ؟جب ہندوستانی فلموں کو نمائش کا این او سی جاری کیا گیا کسی ایک بھی وزیر باتدبیر نے اس کی مخالفت میں کچھ کہنے کی ہمت کی ؟ جتنا جذبہ حب وزیر اعظمی رکھتے ہیں یہ وزیران ملت اتنا جذبہ حب الوطنی بھی کاش ان کے دل میں ہوتا بلکہ اس معاملے میں تو یہ کہتے ہوں گے ، اے دل ہے مشکل ، ان وزراء کے دل میں اگر مظلوم کشمیریوں کا درد ہوتا تو کبھی بھی یہ رئیس زادے ہندوستانی رئیس کو سرحدی در اندازی کا این او سی جاری نہ ہونے دیتے ، اگر یہ قابل وزراء سچ مچ میں پاک دھرتی کی سرحدوں سے پیار کرتے تو سرحدوں پر آئے دن شیلنگ کرنے والے بھارت کو ذہن میں رکھتے ہوئے بنیئے کی بنائی ہوئی کابل کو پاک دھرتی پر کبھی نمائیش کی اجازت نہ ملنے دیتے ۔قارئین کرام آپکو یاد ہو گا کہ پاکستانی فنکاروں کے ساتھ ہندوستان میں کیا سلوک روا رکھا گیا ،پاکستانی فنکاروں کو لے کر بنائی گئی ہندوستانی فلموں کو بھی ہندوستان میں نمائش رکوانے کے کیا کیا ہتھکنڈے برتے گئے پوسٹر تک پھاڑ دیئے گئے سنیمائوں کو جلانے تک گئے وہ لوگ حالانکہ وہ فلمیں ہندوستان ہی کی تھیں اور نمائش بھی ہندوستان میں ہونا تھی۔
مگر افسوس ہم حکومت سے لے کر سنسر بورڈ اور عوام تک اتنے بے حس ہو گئے یا قومی شناخت اور غیرت و حمیت سے اس قدر تہی دست ہو گئے ہیں کہ اگر ہماری حکومت اجازت دے دے تو سنسر بورڈ بھی فوری طور پر انکی فلموں کو سرٹیفکیٹ جاری کر دیتا ہے ،اور عوام بھی اپنی افواج کی شہادتوں کو ،اپنی سرحدوں کی خلاف ورزیوں کو ،بلوچستان اور آرمی پبلک جیسے سانحوں کو ،کشمیر کے بیگناہ مظلوموں کے لہو کو یکسر فراموش کر کے سنیمائوں کا رخ کر لیتے ہیں اور وطن عزیز کے کتنے عزیز ہیں وہ سنیما مالکان اور تقسیم کار ادارے جو انتہائی سفاک ذہنی کے ساتھ ہندوستان کی فلموں کو دکھا کر پیسہ پیسہ اور صرف پیسہ دماغ میں بسائے اپنے تمام شہداء کے خون سے بیوفائی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔اس سے تو یہی تاثر دے رہے ہیں مودی سرکار کو یہ لوگ کہ آپ فکر نہ کریں یہ پانچ فروری کی یکجہتی ریلیاں تو محض رسم ہیں شہداء اپنے خالق حقیقی کے پاس جا چکے ،عزتیں پامال ہوئیں تو کشمیر میں ہوئیں ،سرحدوں کی خلاف ورزی روز کا معمول ہے لہذا مودی جی آپ ٹینشن نہ لیں ہم تو ااپ کے ساتھ ہیں ااپ کی حکومت کو فلموں سے کمائی کی صورت میں زر مبادلہ پاکستان سے حاصل ہوتا رہے گا ۔قارئین کرام ہندوستانی ثقافت کے شائق کیا جانیں کہ جوان بیٹوں کے لاشے کس دل سے اٹھائے جاتے ہیں ؟ بیتیوں کی بے حرمتی کرنے والوں کو کس جگرے سے برداشت کیا جاتا ہے؟۔
پاک فوج کے جوانوں کی جانیں کتنی ارزاں سمجھ لی گئی ہیں جو سرحدوں کی پاسبانی کرتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے کیونکہ وہ جوان جو پاک فوج کے تھے وہ تو دھرتی کے بیٹے تھے حکمرانوں کے تو نہیں تھے نا ؟ اس لئے انکا خون حکمرانوں کو یاد رکھنے کی ضرورت نہیں انکو یاد رکھتی ہے تو صرف دھرتی ماں ۔خدا کی قسم اگر ہندوستانی فلموں کو اجازت دینے والوں کے جوان بیٹے مارے ہوتے ہندوستان نے تو میں دیکھتا کس طرح بیٹے کی لاش پر یہ ہندوستانی فلمیں دیکھتے ، اگر ان کی بیٹی کی بے حرمتی کی ہوتی بھارتی بھیڑیوں نے تو میں دیکھتا کس طرح اس بیٹی کی حرمت کو فراموش کر کے یہ ایشوریا رائے کے ناچ گانے سے لطف اندوز ہوتے ،بالکل صیح کہا ہے کسی نے کہ جس تن لگدی اوہو ای جانے ہور نا جانے کوئی میری پاک دھرتی کے غیور عوام سے اپیل ہے کہ اگر آپ حقیقت میں پاکستانی ہیں تو اپنے شہداء کو یاد رکھتے ہوئے ہندوستان کی چھوٹی سے چھوٹی پراڈکٹ سے لے کر فلموں اور ڈراموں تک کلی طور پر بائیکاٹ کرو تب آپ کو یوم یکجہتی منانے کا حق ہے ورنہ ڈرامہ بازی بند کرو ۔کردار و عمل کو ایک جیسا کر لو بھارت دشمن تھا ، دشمن ہے ، اور دشمن رہے گا اور جو جو اس کا بہی خواہ ہے وہ بھی پاکستان کا دشمن ہے خواہ وہ ایوانوں میں ہو یا عام مکانوں میں سچے پاکستانی ہو تو ہر سطح پر ہندوستان کا بائیکاٹ کرنا ہو گا ورنہ رسمی طور پر بھی یہ یکجہتی کا ڈھونگ ختم کر دو۔
MH BABAR
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر Mobile; 03344954919 Mail ;mhbabar4@gmail.com