تحریر : مدیحہ ریاض 90ء کی دھائی میں پاکستان ٹیلی ویژن پر پیش کیا جانے والا ڈرامہ روزی صنف نازک کے مسائل پر مبنی تھا ۔ اس ڈرامہ کی کہانی عمران سلیم نے لکھی ،یہ ڈرامہ محض ایک ڈرامہ نہیں تھا جسے لوگوں کی تفریح کے لئے پیش کیا، بلکہ یہ ڈرامہ تو ایک آیئنہ تھا ایک ایسا آیئنہ جس میں ایسے معاشرے کا کراہیت بھرا عکس دکھائی دیتا ۔جو عورت ذات کو محض ایک کٹھ پتلی سمجھتا اس ڈرامے کی کہانی ہالی وڈ کی فلم ٹوٹسائی سے ماخوذ ہے۔ اس ڈرامے کی ہدایت کاری ساحرہ کاظمی نے کی۔معین اختر‘اکبر سبحانی‘فریحہ الطاف‘فضیلہ قاضی‘انجم احمد‘حمید ‘لطیف کپاڈیہ ‘ ارمین منیر نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
اس ڈرامے کا مرکزی کردار ہارون ڈرامہ انڈسٹری کی کارکردگی سے بلکل مایوس ہو چکا تھا اور جہاں بھی وہ اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتا وہیں اسے ٹوک دیا جاتا کہ میاں یہ کوئی آرٹ فلم نہیں جہاں تم اداکاری کرو یہ تو کمرشل ہے ۔ لہٰذا تمہیں ہماری مرضی سے کام کرنا پڑے گا ۔اس ڈرامے کا دوسرا ہارون صاحب کی ساتھی اداکارہ جنھیں وہ ڈائیلاگ ڈلیوری سکھا رہے ہوتے ہیں۔
ساتھی اداکارہ کو ڈائیلااگ تو یاد نہ ہوئے الٹا ہارون صاحب کو یاد ہو گئے ۔تو ہارون صاحب کو ایک خیال سوجھا کہ کیوں نہ اس کردار کو وہ خود کریں ۔ اور پھر یوں سفر شروع ہوا ہارون سے مِس روزی ہارون تک کا سفر۔لہٰذا ہارون صاحب نے خود کو ایک خاتون کی شکل میں ڈھالا،روزی ایک ایسی کرخت قسم کی نرس کا کردار تھا جو اس معاشرے کی عورت سے بلکل کر ہٹ کر تھا ۔اور یوں ہارون صاحب نے مِس روزی ہارون تک کا سفر کیا۔یہ سفر پھر مِس روزی کے لئے انگلش والا سفر بنا۔
Miss Rozi
مس روزی ہارون جب اپنے کام کے لئے گھر سے نکلتی تو انھیں لوگوں کی ہوس زدہ نظروں کا سامنا رہتا ۔وہ جہاں کام کرتی وہاں لوگ ان سے کسی نہ کسی بہانے سے فری ہونے کی کوشش کرتے ۔اور تو اور کچھ حضرت انھیں اپنی گاڑی میں لفٹ دینے کی پیشکش کرتے ۔ روزی کے اس کردار نے بتایا کہ کہ لوگ عورت ذات کو اپنی دل پشوری کی چیز سمجھتے ہیں کہ جب دل چاہا کھلونہ سمجھ کے کھیل لیا اور جب دل بھر گیا تواٹھا کر باہر پھینک دیا۔