تحریر: نادیہ خان بلوچ ایک زمانہ تھا جب ہماری محترمہ کرکٹ صاحبہ اپنے عروج پر تھی. آر پار سات سمندر پار ہر جگہ اس کے چرچے تھے. ہر گلی کوچے شہر میں ہماری حسینہ کرکٹ کے عاشق بستے تھے. سب کے دلوں کی دھڑکن تھی ہماری کرکٹ صاحبہ. یوں سمجھیں مغلیہ دور کی رضیہ سلطانہ تھی ہماری کرکٹ. پھر کسی کی کالی نظر لگی اور ہماری رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی. ایسی پھنسی کہ ہم ہر میدان میں زلیل ہوتے گئے. جیسے ناکامی مقدر لکھ دی گئی ہو. جیت تو عید کا چاند ہوگئی. دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں. ہم پہ تو وہ وقت بھی آیا جب ہم زمبابوے سے بھی میچ جیتنے کی دعائیں مانگنے لگے. آئی سی سی ورلڈ کپ ہاتھ سے گیا، ایشیا کپ گیا، آئی سی سی ورلڈ ٹی20 بھی گیا. ہم پھر بھی نعرہ لگاتے رہے تم جیتو یا ہارو سنو. . . ہمیں تم سے پیار ہے. . . اب یہ ہمارا خدا ہی جانتا ہے کہ کس قدر ہمت کرکے خود کے ٹوٹے دل کو بہلانے کے لیے ایسا کہا. ورنہ ارادے تو ہمارے بھی مرحوم ہٹلر والے تھے.
اللہ اللہ کر کے پی سی بی کو تھوڑا سا ہم پہ رحم آیا کوچ کپتان چیف سلیکٹر سفارشی پلیئرز سب کے مکمل سکون کیلیے ٹیم سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا. اس فیصلے کے اطلاق کے نتیجے میں شروع کے چند دنوں میں کچھ خاطر خواہ کارکردگی دیکھنے کو ملی. پاکستان بمقابلہ انگلیڈ ٹیسٹ سیریز میں پاکستان سیریز برابر کر کے ٹیسٹ ریکنگ میں نمبر 1 پوزیشن پر آ گیا. ہمارے مصباح صاحب جن کو بابائے ٹک ٹک کہا جاتا تھا انہیں عوام سر آنکھوں سے بھی اوپر بٹھانے لگی. کچھ لوگوں نے تو یہاں تک بھی کہہ دیا انہیں ون ڈے اسکواڈ میں پھر سے شامل کیا جائے اور وہاں بھی کپتانی سونپی جائے. مگر پھر کیا چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات. ہم ٹیسٹ ریکنگ میں نمبر 1 کیا ہوئے دشمنوں کو اگ لگ گئی جمعہ جمعہ 8 دن بھی نہ ہوئے کم ظرف بھارت نے ہم سے یہ پوزیشن چھین لی. ہماری کرکٹ ٹیم نے خوب ہمسایہ پن دکھایا آرام سے پیچھے ہٹ گئے. ایسے پیچھے ہٹے کہ نمبر 1 بننے کی خواہش کو بھی پیچھے دھکیل دیا. اب ہمیں چمپیئن ٹرافی کھیلنے کے بھی لالے پڑ گئے ہیں.
ایک موقع ملا تھا پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا. مگر اللہ بخشے مرحوم کرکٹ کو رہی سہی کمر یہاں بھی تڑوا دی. مورخ بھی رو دے گا اس سیریز کی داستاں لکھتے لکھتے. ایک ٹیسٹ میچ میں ہم جیت کے اتنے قریب تھے جیسے انتخابات میں اپوزیشن پارٹی ہوتی ہے. اور بعد میں کہتی ہے دھاندلی ہوئی. مگر ہماری کرکٹ قسمت ہم کرکٹ کرپشن کے بعد دھرنا بھی نہ دے سکے. ایسے ہارے کہ فیصلہ ہوا موجودہ ہٹلر کو بلایا جائے اور تمام گھسے پٹے عہدیداران جیسے کہ کپتان سفارشی پلیئرز کو فارغ کیا جائے. اور پھر سے ایک نئی ٹیم بنائی جائے. اب تو ان پلیئرز سے بھی استعفے مانگے جارہے ہیں جنہیں چند ماہ قبل ہاتھ جوڑ جوڑ کے سلام کیے جارہے تھے جن پر فخر کیا جارہا تھا. اب بندہ پوچھے بھلا ان میں کپتان کیا قصور؟ جب ہر بندہ اپنی جگہ کیلئے کھیل رہا ہے ٹیم ورک کوئی نہیں کررہا تو مورد الزام خاص ایک شخص کیوں؟ آج اگر یہ کہا جائے کہ جو میچ میں اچھا پرفارم کرے اسے کپتان بنا دیا جائے گا پھر دیکھیں اوپننگ سے لیکر آخری بال تک کیسے کیسے پلیئرز نکل کے آتے ہیں. یہاں تو سب کو چھوٹے استاد بننے کی فکر ہے.
Pakistan Cricket
ہر کھلاڑی اپنے آپ میں کپتان ہے. اسکی خواہش ہے ٹیم میرے اشاروں پہ چلے. ایسے میں برائے نام کپتان ہی مجرم کیوں؟ 11 پلیئرز کی ٹیم میں جب گروپس ہوں ایسے میں کپتان کیسے اپنا کردار ادا کرے. ہر میچ سے پہلے پلیئرز کی آپسی جھگڑے کی خبر منظر عام پر آنا تو ایک فیشن بن چکا ہے. پریکٹس سیشن میں جب یہ حال ہے میدان میں خاک پیار ہوگا. اب بھلے مصباح اور اظہر علی کو فارغ کردیا جائے مگر ان پلیئرز کا کیا ہوگا؟ نیا کپتان کوئی معجزہ تو نہیں لیکر آئے گا جو سب پر پھونکے گا اور سب ایک ہوجائیں گے. ٹیم ورک تب کہلاتا ہے جب سب ایک قائد کی بات مانیں. مگر یہاں تو کپتان کے کہنے پر پلیئرز رائٹ پوائنٹ پر کھڑا ہونے سے بھی کتراتے ہیں.
سارا نزلہ اکیلے کپتان پر تو نہیں گرایا جا سکتا. یہ کپتان تو وہی ہیں جنہوں نے جب فتح دلائی تو سب کو ان سے اچھا کوئی نظر ہی نہیں آرہا تھا اب ہار کے ذمہ دار صرف اکیلا کپتان تو نہیں. کوچ پلیئرز سب برابر کے حصے دار ہیں. کھیلوں میں سب سے زیادہ بجٹ کرکٹ کیلیے ہی رکھا جاتا ہے اور ملک میں رہا سہا کھیل بھی کرکٹ ہی رہ گیا ہے مگر افسوس کی بات ہے باقی کھیلوں کی طرح کرکٹ بھی انٹرنیشنل لیول بھی ختم ہوتی جارہی ہے. ہمارے اسٹیڈیم تو پہلے ہی ویران پڑے تھے اب بس پی ایس ایل کا سہارا ہے.
ویسے پاکستان میں کرکٹ کے فروغ کیلئے یہ اچھا اقدام ہے اس طرح نئے پلیئرز نکل کر آئیں گے مگر سوال تو یہ ہے پی ایس ایل میں بھی اپنے پلیئرز کے ساتھ کونسا انصاف ہورہا ہے. پی ایس ایل ہے تو پاکستان کی لیگ مگر یہاں فوقیت غیر ملکی پلیئرز کو دی جارہی ہے. بقول مالکان کے اس طرح لیگ کامیاب رہے گی. یہاں ٹیلنٹ نہیں نام دیکھ کے سلیکٹ کیا جارہا ہے. عجب ملکی لیگ ہے جو دوسری بار بھی ملک سے باہر کھیلی جارہی ہے. پی ایس ایل کا اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو مگر اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے اس بار ٹرافی پاکستان میں ہی رہے گی. کوئی ماں کا لال ہم سے نہیں چھین سکتا. چاہے انڈیا ہو یا آسٹریلیا پی ایس ایل میں جیت پاکستان کی ہے. لکھ کے لے لو مجھ سے. چاہو تو انگوٹھا بھی لگوا لو۔