تحریر: مجید احمد جائی میں کتابوں میں رہتا ہوں، جس دن میں کچھ نہ کچھ پڑھ نہ لوں مجھے نیند نہیں آتی۔ میرے اردگرد کتابیں رہتی ہے اور میں کتابوں میں خوش رہتا ہوں ۔کتابوں نے مجھے معاشرے میں پھیلی بُرائیوں سے بچا رکھا ہے ۔مجھے جھوٹ نہیں بولنے دیتیں۔ مجھے انصاف پر اُکستاتی رہتی ہے ۔مجھے صراط کے راستے پر گامزن رکھتی ہیں۔”کتاب کا زمانہ نہیں رہا ”یہ وہ جملہ ہے جو میرے ذہن پر ہتھوڑے برسا رہا ہے۔ پبلشرز حضرات ہوں یا بڑے لوگ۔۔بڑے شوق سے یہ جملہ بولتے نظر آتے ہیں۔کتاب کا زمانہ نہیں رہا ،یا کتا ب کوئی نہیں پڑھتا۔ ۔یہ کہہ کہہ کر اِن لوگوں نے نوجوان نسل کو کتاب سے دُور کر دیا ہے ۔یا کتاب بینی سے دُور بہت دُور کر رہے ہیں۔
کتاب اِنسان کی مخلص اور بہترین دوست ہے ۔کتاب اِنسان کو لاشعوری سے شعور کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے ۔میں کہتا ہوں جس نے زندہ رہنا ہے وہ کتاب پڑھے ۔۔آپ حیران ہو رہے ہوں گے یہ میں نے کیا کہہ دیا۔ جی ہاں ۔۔ میں سچ ہی کہہ رہا ہوں ۔جس نے زندہ رہنا ہے وہ کتاب پڑھے ۔مجھے کتاب نے کندن بنا دیا ہے ۔کتاب نے مجھے باشعور دُوست دیئے ہیں ۔مجھے شعور دیا ہے ۔کتاب میری اُستاد ہے ۔کتاب نے مجھے زندہ کر دیا ہے۔کتاب اِنسان کو جینے کا ہنر سیکھاتی ہے ،جینے کے آداب بتاتی ہے ،بولنے کا سلیقہ بتاتی ہے ۔کتاب ہی ہے جس نے اِنسان کو ارتقاء کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔
ایک طرف اِنسان ستاروں پر کمنڈیں ڈال چکا ہے اور ایک طرف اِنسان حیوانگی کی انتہا کو پہنچ رہا ہے ۔جس نے کتاب کو ساتھی بنا لیا وہ مریخ پر پہنچ گیا اور جس نے کتاب سے دُوری کی وہ حیوانگی کی زندگی گزارنے لگا ہے ۔اچھے اور بُرے اِنسان میں صرف یہی فرق ہے ۔ ایک اچھی کتاب اِنسان کو معاشرے کا اچھا شہری بناتی ہے ،اُس کے ذہن کے پردے کھول دیتی ہے ۔اُس کے علم میں اضافہ کرتی ہے ۔اگر پریشانی سے ،مصیبت سے بچنا چاہتے ہیں تو کتاب کو دوست بنا لیجئے ۔جب آپ کے اندر کتب بینی کا شوق بیدار ہو جائے گا آپ بہت سے بُرائیوں سے بچ جائیں گے ۔کتاب محبت سیکھاتی ہے نفرت سے کوسوں دُور کرتی ہے ۔کتاب بینی آپ کو ایجادات کی طرف لے جائے گی ۔آپ کی سوچ و افکار بدل دے گی اور آپ ترقی کرتے چلے جائیں گے۔
Books
میں سمجھتا ہوں سب سے جاہل اور کاہل اِنسان وہ ہے جو کتاب نہیں پڑھتا۔کتاب ایک باپ کی طرح شفیق ہے جو بچے کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھتا ہے ۔کتاب زندگی بسر کرنے کے گُر بتاتی ہے۔میں سمجھتا ہوں جو عقل رکھتا ہے اُسے کتابوں کے ساتھ دوستی رکھنی چاہیے۔میں دعوے سے کہتا ہوں جب آپ کتابیں پڑھنے لگیں گے آپ کی زبان شکوے و شکایات سے پاک رہے گی ،غیبت ،بد گمانی سے بچ جائیں گے ۔نفرتوں کی آگ سے محفوظ رہیں گے۔
آج میری نظریں جہاں بھی جاتیں ہیں ،حیرانگی سے واپس لوٹتی ہیں ۔چھوٹے کو بڑوں کے ساتھ بولنے کا سلیقہ نہیں ۔ہمسائے کا تصور ختم ہو رہا ہے ،اب تو ایک چار دیواری کے اندررہنے والے ایک دوسرے سے واقف نہیں ۔بھائی ،بھائی کا گریبان پکڑے کھڑا ہے ۔بیٹا باپ کو قتل کر رہا ہے ۔روز اخبارات میں کرائم کی خبروں کی بھر مار ہوتی ہے ۔غیرت کے نام پر روز عورت کو قتل کیا جا رہا ہے ۔خود کشی کا رُجحان بڑھتا جا رہا ہے ۔غریب ہو یا امیر ذہنی سکون کے لئے ترستا ہے ۔زبان شکوے شکایات سے تر رہتی ہے ۔۔منفی سوچوں کی یلغار ہے ۔حکمرانوں سے لے کر پڑھے لکھے آفیسر تک سب ایک دوسرے کی بُرائیوں میں لگے ہیں ۔محنت نہیں کرتے ۔۔کتاب محنت کرنا سیکھاتی ہے ۔بس کتاب ہی سب کچھ ہے۔
ایک طرف کتب بینی سے دُوری ہے تو دوسرے طرف ایک پڑھا لکھا طبقہ یہ گردان کر رہا ہے کہ کتاب کی اہمیت نہیں رہی ،کتاب کوئی نہیں پڑھتا۔۔یہ نوجوان نِسل کے ساتھ ناانصافی ہے ۔میں عمل کر کے خود کو پیش کرنا ہوگا ۔جو دوست ،معاشرہ ،نسل کتاب سے دُور ہے ،اُنہیں اپنے عمل سے کتاب بینی کی طرف لا نا ہو گا۔
عمل سے بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی،کے مصداق ،ہمیں خود کتابیں پڑھنی چاہیں اور دوسروں کو ترغیب دینی چاہے۔اپنی سوچ کو مثبت کرنا ہو گا ہمیں کتب بینی کو فروغ دینا ہے ۔کتاب کا زمانہ نہیں رہا کہہ کر نوجوان نِسل کو دُور مت کریں ۔ہمیں اس فارمولے پر عمل پیرا ہونا چاہیے کہ ”میں بھی کتاب پڑھتا ہوں ،آپ کو بھی کتاب پڑھنی چاہیے۔اپنی ان کم کا کچھ حصہ کتابون کے واقف کر دیں ،کتابیں خریدیں ،کتاب تحفہ دیں ،اس طرح کتب بینی کو فروغ ملے گا اور معاشرے ترقی کرتا چلا جائے گا۔