تحریر : زکیر احمد بھٹی ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہے اور کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہے اور ہر وہ کام کرتے ہیں جو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہیں ہم وہ کام بڑے فخر سے کرتے ہیں جس میں غیر مسلموں کا ہاتھ ہو اور غیر مسلموں کی رسم و رواج ہو ہم کوشش کرتے ہے کہ ان کے رسم و رواج کو بڑھ چڑھ کر مانیں اور اپنے اخلاقیات کا وہ حشر نشر کر دیں جس کی اس معاشرے میں کوئی مثال نہ ملتی ہو ایسی ہی ایک مثال یہ ویلنٹائن ڈے ہے جس میں ہمیں نہ کسی کی عزت کا خیال ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے مسلمان ہونے کا خیال رہتا ہے یہ دن کیسے شروع ہوا کس نے شروع کیا اس بارے ہم نہیں جانتے باقی ہم لوگوں یہ نہیں سوچتے کہ ہم مسلمان ہیں اور اپنے ہر کئے ہوئے عمل کا روز قیامت جواب دیں ہونا ہیں یہ ویلنٹائن ڈے کی ہسٹری کچھ یوں ہے۔
ایک وقت تھا جب روم کی پوری سلطنت بہت ہی زیادہ پرسکون ماحول میں پروان چڑ رہی تھی پورے روم کی عوام خوش حال تھی پھر آہستہ آہستہ رومی سلطنت میں جنگ کا ماحول پیدا ہو گیا جنگ کے دوران روم کی فوجیں بہت زیادہ جان بحق ہونا شروع ہوئی تو روم کے بادشاہ نے اعلان کیا کہ پورے روم میں وقتی طور پر شادی کرنے کے لئے پاپندی ہو گئی مگر روم کے ایک پادری ویلنٹائن نامی نوجوان نے اس کی مخالفت کر دی.جس کو ختم کرنے کیلئے پادری ویلنٹائن نامی نوجوان کو 14 فروری کو سزائے موت دی تھی ویلنٹائن کو سزائے موت اس وقت دی تھی جب روم جنگ کی زد میں تھی ہر طرف ہی آگ لگی ہوئی تھی تب روم کے بادشاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ آج ہمارے ملک کو نوجوانوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے ہمیں سب کو مل کر اپنے ملک کا دفاع کرنا ہے اور میں اس ملک کے بادشاہ ہونے کے ناطے یہ اعلان کرتا ہوں کہ جنگ کے دوران کوئی شخص بھی شادی نہ کرے تاکہ ہم نوجوانوں کو سرحد پر تعینات کر سکیں اور اپنے ملک کی حفاظت کرے بادشاہ کے اعلان کے بعد کوئی بھی نوجوان شادی کرنے کو تیار نہیں تھا ہر انسان کے دل میں بادشاہ کا ڈر خوف بیٹھ گیا اس وقت کا ہر نوجوان یہی سوچ رہا تھا کہ اگر ہم نے بادشاہ کے حکم کے خلاف شادی کی تو کہیں بادشاہ ہمیں قتل ہی نہ کروا دے۔
یہ سلسلہ کچھ دیر ایسے ہی چلتا رہا مگر کچھ ہی عرصے بعد ایک ویلنٹائن نام نوجوان نے بادشاہ کے خلاف اپنی آواز بلند کی اور شادی کی تیاری شروع کر دی جب ویلنٹائن کی خبر بادشاہ تک پہنچی تو بادشاہ نے اس کی ایک نہ چلنے دی اور اس کی شادی روک دی اور بادشاہ نے حکم دیا کہ اس ویلنٹائن نامی نوجوان کو اس شہر سے کہیں دور بھیج دیا جائے بادشاہ کے اعلان کے بعد ویلنٹائن کو شہر سے دور رہنے کا حکم سنا کر شہر سے باہر رہنے کا حکم دیا گیا وقت ایسے ہی چلتا ہے اسی دوران روم میں ایک لڑکی کو ایک لڑکے سے پیار ہو گیا دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے اور شادی کرکے ہمیشہ ہی ایک ساتھ رہنا چاہتے تھے مگر دونوں کے دل میں اس بات کا بھی ڈر تھا کہ کہیں ہمارے پیار کی خبر عام ہو گئی تو بادشاہ سلامت تک پہنچ گئی تو بادشاہ ہمیں قتل ہی نہ کروا دے اسی سوچ بچار میں لڑکی کو خبر ملی کہ ویلنٹائن نامی نوجوان کی بادشاہ سلامت کی آپس میں مخالفت چل رہی ہے یہ سوچتے ہوئے لڑکی نے جس سے وہ پیار کرتی تھی اس کے ساتھ گھر سے بھاگ جانے کا ارادہ کیا اور پھر یوں ہی کیا کہ ایک دن گھر سے بھاگ کر ویلنٹائن کے پاس پہنچ گئی اور ساری صورتحال ویلنٹائن کو سنا دی مگر وہ لڑکی جس لڑکے سے پیار کرتی تھی وہ لڑکا اتنی ہمت نہ کر سکا اور اس لڑکی کے بتائے ہوئے پتہ پر نہ پہنچ سکا۔
The Story Of Valentine’s Day
اب لڑکی اکیلی رہ گئی تھی واپس جانے اور قتل ہونے کے ڈر سے ویلنٹائن کے پاس ہی پناہ لے لی پناہ لینے کے کچھ عرصے بعد ہی ویلنٹائن سے اس لڑکی کو پیار ہو گیا اور دونوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ہم بہت جلدی آپس میں شادی کر لینگے وقت کی گھڑی چلتی ہے اور یہ خبر بھی عام ہو گئی کہ ویلنٹائن ایک لڑکی سے محبت کرتا ہے اور بہت جلدی وہ اس لڑکی سے شادی کرنے والا ہے جیسے ہی یہ خبر بادشاہ سلامت کو ہوئی تو بادشاہ سلامت نے اسی وقت حکم دیا کہ ویلنٹائن اور اس لڑکی کو گرفتار کرکے حاضر کیا جائے بادشاہ کی فوج نے بادشاہ کے حکم کے مطابق ویلنٹائن اور اس لڑکی کو گرفتار کرکے بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا بادشاہ نے ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے ویلنٹائن کو سمجھنے کی بہت کوشش کی دوسری طرف ویلنٹائن نے بار بار اس بات کا اقرار کیا کہ میں اس لڑکی سے پیار کرتا ہوں اور ہم بہت جلد شادی کرے گے بادشاہ سلامت کے سمجھانے کے باوجود ویلنٹائن اپنی ہی دھن میں مگن تھا تو بادشاہ سلامت نے ویلنٹائن کو سزائے موت سنا دی اور کچھ ہی دنوں بعد 14 فروری کو ویلنٹائن کو سزائے موت دے دی گئی۔
ویلنٹائن کی موت کے ایک سال بعد کچھ نوجوان نے ویلنٹائن کی قبر پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی یوں یہ سلسلہ چل نکلا مگر افسوس ہے کہ یہ تو سارا قصہ ہی غیر مسلموں کا تھا مگر ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی آج اس جیسے ناپاک دن کو پیار کا دن سمجھتے اور کہتے ہے اور نہ جانے کتنے گھروں کی عزتوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہے اور حد سے زیادہ منافقت کرتے ہے یہ مثال تو عام ہے کہ جیسا کرو گے ویسا ہی بھروں گے آج ہم کسی کے گھر کی عزت تباہ برباد کرینگے تو کل کو کسی کا ہاتھ ہمارے گھر کی طرف بھی ہو گا ہم مسلمان ہے اور ہمیں یہ اچھی طرح پتہ بھی ہے کہ ہم کیا ہے اور ہماری نسلیں کس طرف چل پڑی ہے نہ اپنی فکر ہے نہ کسی کی آج کل تو یہ زمانہ آ گیا ہے کہ یہاں اپنوں کی عزت بھی محفوظ نہیں ہے اپنوں کے ہاتھوں جب یہ زمانہ ہو تو پھر غیروں پر کیا بھروسہ کرنا۔