تحریر : سید کمال حسین شاہ پاکستان 1947ئ کو قائداعظم کی مدبرانہ قیادت میں آزاد ہوا جبکہ چین 1949ء میں مائوزے تنگ کی عظیم قیادت اور اُن کے لانگ مارچ کے ثمرات کے نتیجہ میں آزاد ہوا۔ 1949ء میں چین کی آزادی کے ساتھ ہی پاکستان اور چین کے تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہونا شروع ہو گئے تھے۔ پاکستان نے چین کی آزادی کو تسلیم کیا یہ پاکستان اور چین کی دوستی کا نقطہ آغاز تھا یا اسے اِس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ پاکستان اور چین کی دوستی کی ابتدا تھی جو بعد میں کوہَ ہمالیہ سے بھی بلند دوستی میں تبدیل ہو گئی۔
۔پاک چین کے ساتھ تعلقات انتہائی اچھے ہیں۔ دنیا میں پاکستان اور چین دونوں ایک دوسرے کے سب سے اچھے دوست کہلاتے ہیں۔دونوں ممالک نہ صرف معاشی بلکہ اقتصادی،اسلحائی اور توانائی میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہے ہیں۔پاکـچین تعلقات کو چینی وزیراعظم لیقی چیانگ نے یو بیان کی۔اگر چین سے پیار کرتے ہو تو پاکستان سے بھی پیار کرو?۔1962ء میں بھارت اور چین کے سرحدی تنازعہ کا آغاز ہوا اور دونوں ملکوں کی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ کھڑی ہوئیں اور ہندوستان اور چین میں سرحدی جھڑپیں شروع ہوگئیں اُس وقت چین عالمی برادری سے کٹا ہوا تھا لیکن پاکستان نے اِس موقع پر چین کا بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ سے چین کی نظر میں پاکستان کا وقار بلند ہوا اور پاکستان اور چین کے تعلقات زیادی بہتری کی طرف گامزن ہونا شروع ہوگئے اور پاکستان اور چین دوستی کے مظبوط رشتے میں بندھنا شروع ہوگئے۔ اِس موقع پر پاکستان اور چین نے اپنے سرحدی مسائل احسن طریقے سے حل کرلئے اور یہ پاکستان اور چین کی دوستی کا کامیابی کی طرف سفر کا آغاز تھا۔
1965ء میں پاک بھارت جنگ چھڑ گئی۔ بھارت نے کشمیر کے تنازعہ پر بغیر اعلانِ جنگ کئے جنگ شروع کردی پاکستان کی بہادر افواج نے بھارت کی فوج کو منہ توڑجواب دیا اور بھارت کو اِس جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ میں چین نے پاکستان کا ہر طرح ساتھ دیا اور پاکستان کی بھرپور مدد کی اور اپنی سچی دوستی کا حق نبھایا اِس جنگ میں چین نے پاکستان کی حمایت میں جو کردار ادا کیا وہ مثالی تھا اور پاکستان اور چین کی دوستی ایک مثالی دوستی میں تبدیل ہو گئی۔
1971 میں نازک اور مشکل مرحلے پر چین نے ایک بار پھر اپنی دوستی کا حق نبھایا اور پاکستان کی بھرپور مدد کی جس کی وجہ سے پاکستان اور چین ایک دوسرے کے اور قریب آ گئے۔ جب 1949 میں چین آزاد ہوا تو امریکہ اور چین کے تعلقات اتنے بہتر نہیں تھے بلکہ کشیدگی کی طرف مائل تھے لیکن پاکستان کی کئی سالوں پر مشتمل مسلسل کوشش اور مخلصانہ جدوجہد کے نتیجہ میں اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے چین کا دورہ کیا۔ اس طرح امریکہ اور چین کے تعلقات بہتر ہونا شروع ہوگئے اور چین کا عالمی برادری میں ایک مقام پیدا ہونا شروع ہوگیا۔ چین کو اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت مل گئی اور چین کو اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کا حق مل گیا۔ پاکستان کے اِس کردار کی وجہ سے چین کی نظر میں پاکستان کا وقار بہت بلند ہو گیا اور چین اور پاکستان کی دوستی مثالی اور کوہ ہمالیہ سے بھی بلند سمجھی جانے لگی اور پاکستان اور چین کی دوستی دُنیا کی نظروں میں ایک قابل رشک دوستی بن گئی۔
Pakistan and China Relations
چین نے ہر موقع اور ہر مرحلے پر پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی کو نبھایا ہے۔ چین نے آٹیم بم بنانے میں پاکستان کی دُنیا کی تمام مخالفتوں کے باوجود مدد کی اس کے علاوہ چین نے پاکستان میں ٹینک سازی اور طیارہ سازی میں بھرپور مدد کی جس کی وجہ سے پاکستان کی اسلحہ سازی کی صنعت نے بہت ترقی کی اس کے علاوہ چین، پاکستان کی مختلف دفاعی منصوبہ جات میں بھرپور مدد کر رہا ہے جس کی وجہ سے چین اور پاکستان کے تعلقات میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔ چین توانائی اور دیگر بہت سے منصوبہ جات میں جن میں سینڈک کا منصوبہ، گوادر پورٹ کا منصوبہ پاکستان کو ریلوے انجن کی فراہمی اور دیگر بے شمار ایسے منصوبہ جات ہیں جن میں پاکستان کو چین کی بھرپور مدد حاصل ہے جس سے پاکستان اور چین دوستی کے ایک ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں جس کی شاید ہی پوری دُنیا میں کوئی مثال موجود ہو اور شاید نہ ہی کبھی ہوگی ـ
پاکستان اور چین کی دوستی کو کوہ ہمالیہ سے بھی بلند سمجھا جاتا ہے کیونکہ دونوں ملکوں کی طرف سے اِس دوستی کو اِس مقام تک پہنچانے میں جس سچائی، مخلصی اور محبت کا مظاہرہ کیا گیا ہے شاید ہی اِس کی پوری دُنیا میں کوئی مثال ہو۔ پاک چین اقتصادی راہداری، ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے، جس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے۔ اقتصادی راہداری پاک چین تعلقات میں مرکزی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہے، گوادر سے کاشغر تک تقریباً 2442 کلومیٹر طویل ہے۔یہ منصوبہ مکمل ہونے میں کئی سال لگیں گے اس پر کل 46 بلین ڈالر لاگت کا اندازا کیا گا ہے۔ راہداری چین کی اکیسویں صدی میں شاہراہ ریشم میں توسیع ہے۔
پاکستان اور چین ایک دوسرے کے بڑے اتحادی ہیں۔ یہ اتحاد دفاعی پہلوؤں سمیت اقتصادی پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان سیاسی بندھن اٹوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کاروباری تعلقات ہمیشہ نمود پذیر رہے ہیں۔ چینی صدر شی چن پنگ کے دورہ کا ایک مقصد دو طرفہ اسٹریجک تعلقات کو ہمیشہ قائم رکھنا بھی ہے۔ چینی صدر کا دورہ پاکستان نواز شریف کی کوششوں کا نتیجہ تو ہے ہی۔ مگر اس سارے دورہ میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا بھی بہت ہاتھ ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار اپنا سرمایہ یہاں لگائیں۔
پاکستان چین سے سرمایہ کاری حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ دونوں کے مابین 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے طے پا گئے ہیں اور آئندہ پانچ سالوں چین صرف توانائی کے منصوبوں میں 32ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ چینی صدر شی چن ہنگ کا دورہ پاکستان دونوں ممالک کے تعلقات کا اس سال نقطہ عروج پر ہے۔ پاکستان کے چین سے بڑھتے تعلقات اور پاکستان کی خوشخالی و ترقی اس کے دشمنوں کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ چین کا شمار دنیا کے ان مضبوط ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ جو اقتصادی حوالے سے مستحکم ہیں۔ جب کہ دوسری طرف پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے مابین تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں۔ پاک چین باہمی رشتے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ ہر عہد میں پاکستان اور چین نے اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کے اقدامات کیے ہیں۔