تحریر : شہزاد سلیم عباسی کراچی شہر میں کروڑوں انسانوں کا سمندر آباد ہے، یہاں کے لوگ کمائی کر کے کر اپنے صوبوں اور دوردراز علاقوں میں اپنے پیاروں، عزیزوں اور جاننے والوں کو خوب پیسے بھیجتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں پرائمری میں پڑھتا تھا تو ہمارے ابا جان بھی کراچی میں سیٹ تھے اور خوب پیسے کماتے تھے اور جب ہم گائوں آتے تو وہاں کے لوگ ہمیں شہری بابو کہتے تھے اور بے شمار لوگ اپنے بزنس کے سلسلے میں کراچی کا انتخاب کرتے اور اصرار کرتے کہ ہمیں بس کراچی میں بزنس شروع کرنا ہے ہمیں کراچی لے چلیں، گویا کہ کراچی کچھ عرصہ پہلے تک پاکستانیوں کے لیے ”یو اے ای ” سے کم نہ تھا۔
کراچی وہ شہر ہے جو ہمارے ملک کو 75 فیصد ریونیو دے کر پالتا ہے۔کراچی نے لوگوں کو اتنا مالا مال کیا کہ لوگ زمین سے آسمان تک پہنچ گئے لیکن ارباب اختیار نے جو سلوک اس کے ساتھ کیا ایسا سلوک تو کوئی سوتیلی ماں کے ساتھ بھی نہیں کرتا ! پچھلے ساڑھے آٹھ سال سے کراچی جو کمرشل اور اکانومی حب کہلا تا تھا، کا کوئی پرسان حال نہیںرہا ۔ شہرکراچی کا منظر کچرا کنڈی جیسا ہے ۔ہر طرف کچرا کچرا اور صرف غلاظت کا ڈھیر ہے۔ کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی بدولت نہ صرف ٹریفک کا نظا م تعطل کا شکار ہے بلکہ شدید ٹریفک جام سے اعصابی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔گٹروں پر ڈھکن نہیںتودوسری طرف پورا شہرگاڑیوں کے آلودہ دھواں سے بھر ا رہتا ہے جس سے سانس اور سرطان کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شہر کراچی نا جائز تجاوزات سے لیکر نکاسی آب نظام کی غیر فعالی، سیوریج کا تباہ حال نظام،صحت عامہ کی غیر تسلی بخش صورتحال، ہسپتالوں میں سہولیات کا شدید فقدان اور پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو تعلیم اور صحت کے اختیارات وغیر ہ کی منتقلی کے بعد سے ترقیاتی کام نہ صرف انتہائی سست روی کا شکار ہیں بلکہ انسان کو انسانیت کی معراج پر پہنچانے والی ”تعلیم ” بھی صوبائی حکومت کی دشمنی کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہے۔
کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا، امن و آشتی کا مرکز تھا، رواداری و بھائی چارے کا مظہر تھا ، انصاف ، یقین ، ایمان اواستحکام کا گہوارہ تھا، علم وعمل کا مسند تھا، ادب ومیلے کی داستانیں رقم کر تا تھا،صنعتوں و فیکٹریوں کا منبع تھا،پاکستان کے سر کا تاج تھا، پاکستان کا پہلا کپیٹل ہونے کی سعادت رکھتا تھااور جو کبھی پاکستان کے ماتھے کا جھومر تھا !! اسے کس کی نظر لگ گئی ؟کون ہے جو اس میںامن نہیں چاہتا ! کون ہے جو سازشوں کے تانے بانے بُن رہا ہے! اب کون ہے جو کراچی شہر کی گھتی اپنے طرز پر سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے! وہ کو ن سے عناصر ہیں جو اس گھٹیا ڈرامہ سیریل کی پیداوار ہیں! کیا کوئی بیرونی قوتیں اس بین الاقوامی سازش میں شریک ہیں! کیا “را” ،موساد”،”سی ای اے”، جیسی ایجنسیاں اس گھنائونی سازش میں ملوث ہیں! مجھے کنفیوثرن ہے کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہمارے اپنے لوگ بھی اس سازش میں ملوث ہوں! کیا کراچی کی سیاسی قیادت(ایم کیوایم، پیپلزپارٹی ، پی یس پی، اے این پی) ان سازشوں سے آگاہ نہیں! کیا کراچی کی بر سرِاقتدار سیا سی قیادت ان چیزوں میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے! کیا اب کراچی آپریشن ، رینجرز کنٹرول اور دو پارٹیوں کی لانچنگ کے بعد پی پی پی اور ایم کیو ایم امن نہیں چاہتے۔ بے نظیر مرحومہ نے 93ء میں 121 ارب روپے کا بجٹ منظور کیا تھا اور آج سی ایم مراد علی شاہ نے کراچی جیسے بڑے شہر کے لیے صرف 10 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
Shahzad Saleem Abbasi
ذوالفقار علی بھٹو کے نے جن ترقیاتی منصوبوں پر کام کیا ان میں پاکستان اسٹیل ملز کا قیام، پورٹ قاسم،ایکسپورٹ فری زون ، این ای ڈی یونیورسٹی،میجر ضیاء الدین شہید عباسی ہسپتال،لیاقت آباد سپر مارکیٹ،سندھ میڈیکل کالج،کراچی پولٹری اسٹیٹ جس کے لیے 25 ہزار ایکٹر مختص کی،شاہرائے فیصل،شاہرائے قائدین،نیو کراچی منصوبے،حسن اسکوائر کا سپر ہائی وے،گلستان جوہر کے رہائشی منصوبے، لیاقت آباد ہسپتال، کے ایم سی اور کینپ کے ایٹمی بجلی گھر کاقیام کے منصوبہ جات شامل ہیں۔ اگر ان ادوار میں ایسے بڑے بجٹ اور ترقیاتی منصوبے شروع کیے جاسکتے تھے تو کیا بعید ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی پی پی اپنے بزرگوں کو فالو نہیں کر رہی ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پیپلزپارٹی کراچی دشمنی میں اتنا آگے نکل گئی کہ انہیں اب کراچی کی ترقی سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔
کراچی آپریشن کیصورتحال اور معاملات طہ پا جانے کے بعد کراچی کے تینوں مین اسٹیک ہولڈرز پی پی پی ، ایم کیوایم اور رینجرز کو کراچی کی بہتری بارے سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہو اتو پھر شاید پاکستان کے عوام اور عالمی میڈیا یہ سوچنے پر مجبور ہونگے کہ کراچی ہمیشہ سے بین الاقوامی سازش کا حصہ رہا ہے اور حصہ بننے میں مدد کون فراہم کرتا ہے یہ سب کو معلوم ہے ۔ ضیا ء دور سے لیکر جنرل مشرف کی کراچی یلغار تک اور مشرف دور میں ایم کیوایم کو کھلی چھوٹ دینے تک اور پھر ایم کیو یم کو دوحصوں میں بانٹنے سے لیکر پی ایس پی بنانے تک کے سارے پتے اور چالیں کون چلتا ہے اور کس اسٹیبلشمنٹ کے پاس اس کا ریموٹ کنٹرول ہے وہ بھی آشکار ہو جائے گا۔
حکومت شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے ۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری ہے جس کے تدارک کے لیے حکومت نے اب تک کسی قسم کے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے۔حکومت اگر شہریوں کو تعلیم، روزگار،صحت ، صفائی،امن و امان جیسی بنیادی سہولیات فراہم نہ کرسکے تو شہری کس سے فریادکریں۔اور ہاں ہمیں اب ڈو مور کے مطالبات کو چھوڑ کر دنیا ئے عالم میں دہشت گردی پھیلانے کے واحدپالیسی ساز سورس امریکہ اور متعصب بھارت کو کراچی میں ان سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے خلاف شٹ اب کال دینا ہو گی۔
خدا راہ کراچی کے عوام اور کراچی کی روح سے کھلواڑ نہ کریں ۔ کراچی کو ایک دہائی پہلے والا کراچی بنائیں ۔ کراچی میں روشنیاں پھر سے لوٹائیں ۔میئر کو اختیارات دیںیا کوئی دوسرا حل نکالیں لیکن اب کی بار کراچی میں کوئی ایسا مضبوط مکین آنا چاہیے جو کراچی کے عوام کے لیے خوشحا لی کا پیغام لائے جو نہ کبھی ملک کے کسی اندونی خلفشار میں آئے نہ کبھی کسی بیرونی سازش کا شکار ہو۔