تحریر : حکیم منصور العزیز امریکہ کی جانب سے دھمکی کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت جنرل مشرف کی طرح سجدہ ریز ہو گئی اور کشمیری و پاکستانی قوم کے دلوں کی دھڑکن اتحاد امت کے داعی، خدمت خلق کے شہسوار حافظ محمد سعید کو جماعة الدعوة کے مرکزی رہنمائوں سمیت نظربند کر دیا۔جس کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج ہوا اور رد عمل دیکھنے میں آیا،مقبوضہ کشمیر میں حریت رہنما بھی بولے اور نظربندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔حکومت کا کہنا تھاکہ اقوام متحدہ نے ان کی جماعت پرپابندی لگائی ہے اس لئے ہم اقدامات کر رہے ہیں حالانکہ جب اقوام متحدہ نے پابندی لگائی تھی اسوقت حافظ محمد سعید کو نظربندی کیا گیا تھا اور پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے انہیں رہا کیا تھا۔
نظربندی کے دو ہفتے بعد مشیر خارجہ سرتاج عزیز جاگے اور انہوں نے بیان دے ڈالا کہ حافظ محمد سعید کی نظربندی نیشنل ایکشن پالیسی کا حصہ ہے ۔اس پرمسلم لیگ(ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ جب نیشنل ایکشن پلان بنا تو میں اور مشاہد حسین سید نے اس میں اپنی پارٹی کی نمائندگی کی تھی جس میں کسی جگہ پر بھی حافظ سعید کا ذکر نہیں تھا۔کشمیریوں کی جدوجہد ضرور رنگ لائے گی۔حافظ محمد سعید کی پیدائش 1948 میں اس وقت ہوئی جب ان کا خاندان انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچا۔ ہجرت کے اس سفر میں ان کے خاندان کے 36 افراد شہید ہوئے۔ خاندان کا کوئی بچہ زندہ نہ رہا۔ حافظ محمد سعید کا بچپن سرگودھا میں گزرا جہاں انہوں نے اپنی والدہ سے قرآن حفظ کیا اور گائوں کے اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
میٹرک کے بعد مزید تعلیم کے لیے اپنے ماموں اور معروف سلفی عالم دین حافظ عبداللہ بہاولپوری کے پاس بہاولپور چلے گئے۔پروفیسر حافظ محمد سعید جماعة الدعوة کے امیر ہیں۔ یہ منہج السلف پر چلنے والی جماعت ہے۔ اس کا قیام 1985ء میں عمل میں آیا۔دیگر دعوتی تنظیموں کے برعکس جماعت الدعوہ سیاست ، معیشت ، معاشرت اور صحافت سمیت ہر شعبہ زندگی میں دعوت کا کام کر رہی ہے۔جماعت الدعوہ ملک کے اند ر ہمیشہ پر امن رہی ہے۔جلاو گھیراو، توڑ پھوڑ، مظاہرے اور جلوس نکالنے کا کام نہ صرف خود نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف رائے عامہ بھی ہموار کی۔ جماعت الدعوہ کا یہ نقطہ نظر ہے کہ مسلمان ممالک میں مسلمان حکومتوں کے خلاف مسلح جدو جہد درست نہی۔اس سے نہ صرف امت مسلمہ کمزور ہوتی ہے بلکہ کفار کو اپنی سازشیں کامیاب بنانے کا موقع بھی ملتا ہے۔
اس کایہ منہج ہے کہ مسلمان حکمران اور عوام کو دین کی صحیح اور سچی دعوت دی جائے۔جماعت الدعوہ کا یہ نقطہ نظر ہے کہ عوامی مقامات پر بم دھماکے ، عوام الناس کی املاک کو نقصان پہنچانا، بے گناہ افراد کو خواہ مخواہ قتل کرنا، عورتوں کی عصمت دری کرنا اور انسانیت کے خلاف دیگر جرائم کھلی دہشت گردی ہے۔یہ کام کوئی تنظیم کرے یا ملک وہ دہشت گرد ہے۔ اسی طرح جماعت الدعوہ کے نزدیک مسلم ممالک میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری نہ صرف حکومتوں پر عائد ہوتی ہے بلکہ عام مسلمانوں کو بھی ان کے حقوق کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔سماجی بہبود اور مفت طبی سہولیات پہنچانے کے حوالے سے جماعت الدعوہ نے فلاحی ادارہ فلاح انسانیت فائونڈیشن قائم کیا۔8اکتوبر2005 کوآزاد کشمیر اور صوبہ سرحد میں آنے والے زلزلہ میں فلاح انسانیت فائونڈیشن نے بھرپور کردار ادا کیا۔جس کا اعتراف عالمی میڈیا نے اپنی رپورٹوں میں کیا۔26 نومبر 2008ء کو ممبئی میں حملے کے بعد اس تنظیم پر الزام عائد کیا گیا۔ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی طرف سے اس کے ارکان کو دہشت گردی کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔
PML-N
ملک بھر میں اس کے دفاتر بند کر دئیے گئے اور تنظیم کے رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند کر دیاگیا۔جس پر جماعت کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی اور سماعت پر جماعت الدعوہ پر عائد ہونے والے تمام الزامات جھوٹے ثابت ہونے پر عدالت نے جماعت پر تمام پابندیاں ہٹادیںاور آزادانہ کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔جس کے بعد موجودہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے حافظ محمد سعید کو ایک بار پھر نظربند کر دیا۔وکلاء تنظیموں نے انکی نظربندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ان کی نظربندی توہین عدالت اور غیرقانونی،غیر آئینی ہے،انہیں فوری رہا کیا جائے،تھر سندھ میں ہندو بھی ان کی رہائی کے لئے میدان میں نکلے،کسانوں نے لاہور میں احتجاج کیا اور اعلان کیا کہ مودی سرکار یادرکھے! پاکستان کے پانیوں پر قبضہ انڈیا کو بہت مہنگا پڑے گا۔ آج ہزاروں کسان سڑکوں پر ہیں’ہم راوی ، چناب اور جہلم میں دوبارہ روانی لائیں گے۔
کشمیر ڈیموں سمیت پاکستان کا حصہ بنے گا۔ کسی کو آنے والی نسلوں کا پانی بیچنے کا اختیار نہیں۔پانامہ والے راوی، چناب اور جہلم کے پانیوں کا بھی قوم کو حساب دیں۔ حافظ محمد سعید کی نظربندی ختم نہ کی گئی تو کروڑوںپاکستانی سڑکوں پر نکلیں گے۔ گستاخ بلاگرز رہا اور بیرونی دبائو پر محب وطن لیڈروں کو قید کیا جارہا ہے۔ حافظ محمد سعید و دیگر رہنمائوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔نظربندیاں اور گرفتاریاں ہمارے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔ حافظ محمد سعید کو گرفتار کر کے حکمران کشمیربھارت کی جھولی میں ڈالنا چاہتی ہیں۔ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے ذریعہ کشمیریوں کی مرضی کے برعکس مسلط کردہ کوئی حل قبول نہیں کریں گے۔ سال 2017ء کو کشمیر کے نام کرتے ہوئے شروع کی گئی ملک گیر جدوجہد بھرپور انداز میں جاری رکھیں گے۔لاہور کی طرح دیگر شہروں میں بھی بڑے کسان کارواں ہوں گے۔
ملی یکجہتی کونسل،دفاع پاکستان کونسل نے بھی حافظ محمد سعید کی نظربندی کے خلاف اجلاس بلائے اور تحریک چلانے کا اعلان کیا،قوم کا ہر فرد حافظ محمد سعید کے ساتھ ہے۔وہ اتحاد امت کے داعی تھے اور اتحاد امت وقت کا تقاضا ہے، جس کے لئے تمام مکاتب فکر کی سنجیدہ اور صاحب ادراک قیادت کوشاں ہے۔جماعت الدعوة کے سربراہ کی پاکستا ن کے اندر دہشت گردی اور فرقہ واریت کے حوالے سے کوئی سرگرمیاں ہیں اور نہ ہی الزام۔ البتہ امریکہ اور بھارت کو ان سے تکلیف ضرور ہوسکتی ہے۔جس کا علاج صرف اور صرف مقبوضہ کشمیر کی آزادی ہے۔حکومت میں ہمت ہوتی تو امریکہ کے نیم پاگل اور متعصب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی پرحافظ سعید کی نظربندی کی شایدضرورت بھی نہ پڑتی۔ محض الزامات اور بیرونی دباو پرحافظ سعید کی نظر بندی بلاجواز اور قابل مذمت ہے۔ جماعة الدعوة کی اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے پالیسی نہ صرف حوصلہ افزا ہے بلکہ ان پر فرقہ واریت اور دہشت گردی کا بھی کوئی الزام نہیں۔ان کے کسی کارکن پر ملک بھر میں ایک بھی مقدمہ درج نہیں،ایسے میں ان یکی نظربندی بھارت کو خوش کرنے اور تحریک آزادی کو کمزورکرنے کی مذموم سازش ہے۔
اپنے ایک انٹرویومیںحافظ محمد سعید کا کہنا تھا کہ افغانستان میں شکست خوردہ امریکہ پاکستان کی سالمیت و خودمختاری پر حملے کر رہا ہے ڈرنے ، جھکنے اور منت سماجت کی بجائے قرآن کی رہنمائی میں پالیسیاں ترتیب دی جائیں۔ مسلمان اپنے دین و ایمان کی حفاظت کریں اللہ ملکوں و قوموں کی حفاظت کرے گامسلم حکمران جن کے پیچھے چل کر برباد ہو رہے ہیں وہی مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ مسائل پیدا کر رہے ہیں اللہ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ کلمہ پڑھنے والے مسلمان کافر قوتوں کی اطاعت کریں قرآن پاک کی تعلیمات اور سیرت رسول ۖ پر عمل کئے بغیر بیرونی قوتو ں کی غلامی سے نکلنا ممکن نہیں ہے۔ دنیا میں60کے قریب اسلامی ممالک ہیں پاکستان کو امریکہ و انڈیا سے جان چھڑا کر ترکی ، سعودی عرب اور مصر سے جدید ٹیکنا لوجی و معاشی معاہدے کر کے تعلقات کو مضبوط کرنا چاہیے ،ملکی و قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔