اسرائیل (جیوڈیسک) اسرائیلی کابینہ کے ایک وزیر نے پیر کو کہا تھا کہ نیتن یاہو فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے حامی نہیں ہیں۔
ایسے میں جب امریکہ کا منصب صدارت سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے درمیان وائٹ ہاؤس میں پہلی باضابطہ ملاقات ہونے جا رہی ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی راہنما ایران اور علاقائی امور پر امریکہ کے ساتھ مشترکہ پہلو تلاش کرنے کے متمنی ہوں گے۔
نیتن یاہو وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے دوبدو ملاقات کرنے والے چوتھے غیرملکی راہنما ہوں گے۔ اس سے قبل برطانوی وزیراعظم تھریسا مے، جاپان کے وزیراعظم شنزو ایبے اور کینیڈا کے وزیراعظم جسٹس ٹروڈو نئے امریکی صدر سے ملاقات کر چکے ہیں۔
بدھ کو ہونے والی اس ملاقات کے بارے میں مشرق وسطی سے متعلق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو حالیہ دنوں میں پیش آنے والے متعدد واقعات کے تناظر میں ایران کا راستہ روکنے، عرب دنیا کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو از سر نو ترتیب دینے اور اسرائیل، فلسطین کے درمیان امن سے متعلق پیش رفت کی کوشش کر سکتے ہیں۔
اسرائیلی کابینہ کے ایک وزیر نے پیر کو کہا تھا کہ نیتن یاہو فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے حامی نہیں ہیں لیکن وزیر نے اس بارے میں تبصرہ کرنے سے گریز کیا کہ آیا اسرائیلی وزیراعظم بدھ کو امریکی صدر سے ملاقات میں اس کا کھل کر اظہار کریں گے یا نہیں۔
امریکہ روانگی سے قبل نیتن یاہو نے بھی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل سے متعلق اسرائیلی موقف کی وضاحت کرنے سے انکار کیا۔
جب ان سے ایک صحافی نے اس بارے میں سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ “میرے ساتھ چلیے، آپ کو بہت واضح جواب سننے کو ملے گا۔”
2001ء سے 2004ء تک تل ابیب میں امریکی سفارتی مشن کے سربراہ کے طور پر کام کرنے والے سابق سفارتکار رچرڈ لیبرون کہتے ہیں کہ “فلسطینی اس (ملاقات) کو بہت غور سے دیکھیں گے اور نظر رکھیں گے کہ آیا امریکہ کی پالیسی میں کسی تبدیلی کا اشارہ ملتا ہے یا نہیں۔”
مشرق وسطی کے امور کے ایک ماہر ڈیوڈ میکووسکی کے نزدیک ٹرمپ اور نیتن یاہو کی ملاقات میں دو سوال بڑے اہم ہو سکتے ہیں۔ “عرب ریاستوں کے ساتھ کیسے کام کیا جائے؟ خطے میں ایران کے اثرورسوخ کو کیسے محدود کیا جائے؟”۔
2015ء میں ایران نے اپنے جوہری پروگرام میں تخفیف سے متعلق سے متعلق امریکہ سمیت چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو دونوں ہی اس معاہدے کے بڑے ناقد رہے ہیں۔
تاہم بہت سے مبصرین کے خیال میں ٹرمپ انتظامیہ اس معاہدے کو یکسر مسترد کرنے کی بجائے ایران پر اس کے نفاذ کے لیے زیادہ دباؤ ڈالے گی۔