تحریر : عماد ظفر ویلنٹائن ڈے محبت کرنے والوں کے دن کے طور پر پوری دنیا میں منایا جاتا ہے. اس دن کی تاریخی حیثیت ایک شخص سینٹ ویلنٹائن سے منسوب ہے . جس کی تاریخ آپ با آسانی گوگل پر یا وکی پیڈیا پر پڑھ سکتے ہیں.جب سے دنیا سمٹ کر ایک گلوبل گاؤں بنی ہے تب سے اس جدید گاؤں کی خوشیاں اور غم ایک دوسرے کے ساتھ منائے جاتے ہیں.ٹھیک ایسے ہی جیسے اگر کسی گاؤں میں کسی کی شادی ہو یا کسی کی وفات ہو جائے تو پورا گاوں خوشی کو مناتا ہے اور غم میں سوگوار ہوتا ہے. کسی کی بھی خوشی یا غمی میں شرکت کرتے ہوئے اس کی زات پات یا عقیدے کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے. جدید دنیا کی مثال بھی ایسی ہی ہے ذرائع مواصلات میں بے پناہ ترقی کے بعد مختلف تہذیبوں کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آ چکے ہیں.ایک دوسرے سے مکالمہ کرتے ہیں ایک دوسرے سے اپنے اپنے تجربات مشاہدات اور عادات و خیالات کا اثر لیتے ہیں.مختصرا ٹیکنالوجی اور مواصلاتی نظام نے ایک نئی تہزیب اور ثقافت کو جنم دیا ہے جو کسی بھی قسم کے تعصب اور فرسودہ خیالات کو نہ مانتے ہوئے اس وقت زور و شور سے پنپ رہی ہے. دنیا میں مدر ڈے منایا جائے یا تعلیم کا عالمی دن تمام ممالک ان مخصوص دنوں کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق مناتے ہیں۔
اسی طرح ویلنٹائن ڈے بھی پوری دنیا میں محبت کرنے والوں کیلیئے ایک اہم تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے.جس میں پیار کرنے والے ایک دوسرے کو تحائف دے کر یا کسی تفریحی مقام پر جا کر کچھ لمحوں کے لیئے حالات و واقعات کی گردشوں کو بھلا کر محبت کے دامن میں کچھ دیر کو سر چھپاتے ہیں. ہمارے ہاں بھی اس دن کو پیار کرنے والے افراد دیگر دنیا کے ممالک کی طرح مناتے ہیں. چاکلیٹ پھول اور مختلف تحائف ایک دوسرے کو بانٹتے ہیں.خوشی کا اظہار کرتے ہیں.ان لوگوں کو اس سے غرض نہیں کہ ویلنٹائن ڈے کیوں منایا جاتا ہے انہیں غرض ہے تو چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سیلیبریٹ کر کے خوشگوار یادیں بنانے سے. زندگی کی مسلسل تھکا دینے والی اس جہد مسلسل میں سے چند لمحے چرا کر مسکانیں اور خوشیاں بانٹنے سے. اور ایسا معاشرہ جہاں خوف و ہراس کے سائےپہلے پی سے گہرے ہوں روایات رواج انسانی جان سے بھی بڑھ کر مقدم ہوں بھلے ہی وہ کتنے فرسودہ اور کھوکھلے کیوں نہ ہوں، اس معاشرے میں اس دن کو منانے والے یقینا حبس کے موسم میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہوتے ہیں. اس دن کو لے کر کچھ حضرات اور جماعتیں خوب دہائیاں دے کر اس دن کو منانے والوں کو کبھی عیسائیوں اور یہودیوں کا آلہ کار قرار دیتے ہیں اور کبھی اس دن کو بے حیائی اور عریانی کا منبع۔ اب سوال یہ ہے پھر ہم ہر سال یکم مئی کو مزدودروں کا عالمی دن کیوں مناتے ہیں. وہ دن بھی تو “کفار” مزدوروں کے مرنے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
ویسے تو فٹبال کلب ریال میڈرڈ بارسلونا یا مانچسٹر یونائیٹڈ سے بھی ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن چیمپین لیگ کے مقابلوں کو ایک بڑی تعداد یہاں دیکھتی ہے ان مقابلوں پر گیٹ ٹو گیدڑ کا اہتمام کر کے بار بی کیو ڈنر کا اہتمام کیا جاتا ہے اور خوب ہلا گلا کیا جاتا ہے. تو کیا کفار کی ٹیموں کے میچ دیکھنے پر اور انہیں پسند کرنے پر بھی پابندی لگا دی جائے؟ ایک اور اعتراض جو اس دن کے حوالے سے اٹھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے فحاشی و بے حیائی پھیلانے کا باعث بنتا ہے. سمجھ سے بالاتر ہے کہ ویلنٹائن ڈے منانا فحش ہے یا گوگل پر جنسی رجحانات کی ویب سائٹس کو سرچ کر کے دنیا بھر میں جنسی سرچ میں پہلے نمبر پر آنا؟ ویلنٹائن ڈے پر تحفے تحائف دینا بے حیائی ہے یا پھر عورت کو باندی بنا کر چار دیواری کے نام پر اسے گھر میں قید کر کے محض اپنی شہوانی خواہشات پوری کرنا؟ اس ضمن میں اکثر اوقات یہ طنز بھی سننے کو ملتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے پر آپ خود تو تحائف دیتے ہیں تو اپنی باجی کا بھی بتائیے انہیں کتنے تحائف ملے. یہ مثال پہلے تو اس منفی سوچ کی عکاسی کرتی ہے جو عورت اور بچیوں کو ڈھور ڈنگر سمجھتے ہوئے ان کی جبلتوں کو غیرت اور گناہ سے نتھی کرتے ہوئے انہیں محض بچے پیدا کرنے والی مشین اور گھر کا چولہا جلانے والا روبوٹ سمجھتی ہے۔
Love
دوسرا اگر مرد محبت کی آرزو کرتے ہوئے اس دن تحفے تحائف وصول کر سکتا ہے تو عورت کیوں نہیں. ” کوئی بھی انسانی جبلت اگر قدغنیں لگانے سے رک سکتی تو ہمارا معاشرہ کب کا جبلتوں کے اظہار میں گونگا بہرا ہو چکا ہوتا. خلیل جبران نے اس ضمن میں بہت خوب کہا تھا کہ بنیادی جبلتوں کے اظہار میں شرم سفید فریب کی ایک قسم پے مشرق میں اسے تہذیب کا نام دیا جاتا ہے. تہزیب بھی زبان کی مانند جامد نہیں ہوتی. اس کو وقت اور عصر حاضر کے تقاضوں میں ڈھل کر آگے جانا ہی ہوتا ہے.بصورت دیگر ٹھہرے ہوئے پانی کی مانند یہ بدبو دینے لگتی ہے اور جمود کا شکار ہو کر اپنی موت آپ مر جاتی ہے. وہ خیالات جو زندگی کی رونقوں یا پر لطف لمحات کو تیاگ کر اپنے آپ پر جبر کرنے کا کہتے ہیں آہستہ آہستہ نفسیات اور سائنس کے اصولوں کے مطابق غلط ثابت ہوتے جا رہے ہیں.انسانی مزاج اور رویوں پر بے پناہ تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا گیا ہے کہ آرزوؤں اور امنگوں کو کسی بھی قدغن کا پہرہ لگا کر اگر دبانے کی کوشش کی جائے تو معاشرے کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے. یہ حقیقت ترقی یافتہ ممالک نے تسلیم کرتے ہوئے اپنے معاشروں میں شخصی آزادی اور جزبات کے اظہار پر موجود قدغنیں مدتوں پہلے ختم کر دی ہوئی ہیں.اور نتیجتا ان معاشروں میں اعلی انسانی اقدار کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔
ہم لوگ جسے بے راہ روی کہتے ہیں وہ انسان کی فطری جبلت تصور ہوتی ہے. پیٹ بھرنے کے بعد انسان کی دوسری بڑی خواہش جنسی آسودگی حاصل کرنا ہوتا ہے. اور جب ان جزبات کو کسی بھی قسم کی قدغنوں کا شکار بنایا جاتا ہے تو یہ جزبات خود لذتی بچہ بازی اور انٹرنیٹ پر موجود فحش مواد کو دیکھ کر نکالے جاتے ہیں. اگر ہمارے ہاں ان عادات پر تحقیق ہو تو یقینا ہم بھی مغربی ممالک سے اس “بے حیائی ” میں پیچھے نہیں ہوں گے. فرق صرف اتنا ہے کہ ہم یہ آسودگی چوری چھپے اور ایسے طریقوں سے حاصل کرتے ہیں جو چوری چھپے یا نظروں میں آئے بنا حاصل کی جا سکے. خیر بات ویلنٹائن ڈے کی ہو رہی ہے. زرا بتائیے کہ محبتیں بانٹنے کا دن کیونکر کسی ایک خاص مزہب کا ہو سکتا ہے کیونکہ محبت تو مزہب و سرحدوں سے بے نیاز ہوتی ہے رسوم و رواج کو نہ یہ مانتی ہے اور نہ پہنچانتی ہے. اور بقول منٹو مرد کے اعصاب پر اگر عورت سوار نہیں ہو گی تو کیا جانور ہوں گے؟ اس بات کو عورت پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے کہ وہ مرد سے چاہے جانے کی خواہش نہیں رکھے گی تو اور کیا کرے گی؟ ویسے بھی اگر اسلحوں کی نمائش کے دن منائے جا سکتے ہیں۔
جنگوں کو گلوریفای کرنے کے دن منائے جا سکتے ہیں تو محبت کرنے والوں کا دن کیوں نہیں؟ اگر اعتراض صرف ویلنٹائن کے فرنگی ہونے پر ہے تو اس دن کا نام تبدیل کر کے لیلی ڈے یا مجنوں ڈے رکھ لیجیئے. محبت کرنے والوں کو نام و نسب سے ویسے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی. رہی بات اخلاقی اقدار کی تو اگر یہ اقدار خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور فحش ترین مواد انٹرنیٹ پر ڈھونڈنےمیں اقوام عالم میں اول نمبر پر آنے سے متاثر نہیں ہوتیں، اگر یہ اخلاقی اقدار خواتین کے استحصال اور غیرت کے نام پر ان کے قتل جیسے بیہمانہ واقعات سے بھی متاثر نہیں ہوتیں تو بھلا محبت کرنے والوں کا ایک دن ان کا کیا بگاڑ سکتا ہے. زندگی محبت کرنے اور محبت بانٹنے سے حسین و جمیل ہوتی ہے تعصب یا نفرت بانٹنے سے نہیں. ویلنٹائن ڈے منانے والوں کو محبت کا یہ دن مبارک ہو۔