تحریر : محمد قاسم حمدان ترکی میں جب سے صدارتی نظام کے لئے کوششیں شروع ہوئی ہیں ملک میں دہشت گردی کا سیلاب امڈ آیا ہے اتاترک کے نظریات کی محافظ ری پبلکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین کلیچدار اولونے کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ اگر ترکی میں خون ریزی اور دہشت گردی کو روکنا ہے تو ملک میں صدارتی نظام کو متعارف کرانے سے روکنا ہوگا حالانکہ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان کی جماعت کے بانی اتاترک اور عصمت انونو بھی صدارتی نظام کے حق میں تھے ۔ترکوں کے دل میں دھڑکن کی طرح بسنے والے اردوان کو اس وقت مغرب نے ہدف بنارکھا ہے’ انہیں آمر قرار دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لیے ہوئے ہیں۔
اردوان نے جس طرح ترکی کو انتھک محنت سے برق رفتار ترقی دے کردنیا کی سولہویں بڑی معیشت بنا دیا ہے اس عظیم کارنامے پر دشمن حسد میں جل بھن گے ہیں۔اردوان کاقصوریہ ہے کہ وہ عالم اسلام کے مسلمانوں کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں ان کی تکلیف اور آہ وبکا پر اتنی ہی تکلیف محسوس کرتے ہیں جتنی یہ بے آسرا مسلمان کرتے ہیں ۔صدر اردوان شروع ہی سے عالم اسلام کے مسائل اور دکھی انسانیت کی جانب بھر پور توجہ دیتے چلے آرہے ہیںانہوں نے فلسطینیوں کی مدد کرنے والے فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلیوں کے حملے اور نو ترک مسلمانوں کی شہادت پر نہ صرف اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کردیا بلکہ اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات کو محدود کر دیا ۔ان کی اس جرات نے انہیں عالم اسلام کا ہیرو بنا دیا۔ترکی نے میانمار کے مسلمانوں پر ظلم وستم کو رکوانے اور ان کو مدد فراہم کرنے کے لئے اپنی بھر پور کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔کشمیرکے مسئلے پر ترکی پاکستان سے زیادہ متحرک ہے ۔اردوان نے تین ملین بے گھر شامی مسلمانوں پر نہ صرف اپنے دروازے کھول دئیے بلکہ لاکھوں مہاجرین کو ملی اخوت کے تحت ترکی کی شہریت دینے کا سلسلہ شروع کر کے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے ۔اردوان کا خواب یہ ہے کہ 2023میں ترک جمہوریہ کے 100سال مکمل ہونے پر وہ ترکی کو دفاعی ‘معاشی اور سماجی حیثیت سے دنیا کا کامیاب ترین ملک بنا دیں گے۔
رجب اردوان تین بار ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور اب 2014ء سے صدراتی فرائض انجام دیتے چلے آ رہے ہیں ۔ان کی ابتدا سے کوشش تھی کہ ملک کو دہرے نظام کی بجائے واحدانی نظام میں پرو دیا جائے ۔پہلی دفعہ انہوں نے جب آواز بلند کی تو اس کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ۔اسی ردعمل کے نتیجے میں ان کی جماعت 2015میں سادہ اکژیت بھی حاصل نہ کر سکی ۔دراصل عوام اس پروپیگنڈے کا شکار ہو گئے تھے کہ اردوان صدر بنکر صدارت کی آڑ میں خلافت کی راہ ہموار کر رہے ہیں حالانکہ وہ صدر اور پارلیمان کے ٹکراؤسے بحرانوں میں گھرنے کی بجائے ملک کو سپر پاور بنا نا چاہتے ہیں ۔ھمارے ملک میں بھی دہرے نظام کی بدولت صدر اور پارلیمنٹ کے درمیان کشمکش جای رہتی ہے۔ ضیاء الحق صاحب نے جونیجو کو چلتا کیا ،صدر اسحاق نے پہلے بی بی اور پھر میاں صاحب پر اٹھارویں ترمیم کو آزمایا اسی طرح بے نظیر کے اپنے قابل اعتماد فاروق لغاری نے انہیں گھر کی راہ دکھائی ۔ان ریشہ دوانیوں کے سبب ملک معاشی لحاظ سے کمزور ہوگیا۔صدر اور وزیراعظم کی یہ کشمکش نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے کے مترادف تھی۔
Recep Tayyip Erdogan
صدارتی نظام کی طرف سفر ترکی میں کوئی پہلی دفعہ نہیں ۔ترگت اوزال ،سلیمان دیمرل اور نجم الدین اربکان صدارتی نظام اپنانے کے حق میں رہے لیکن مارشل لا کے خوف سے ایسا نہ کر سکے ۔صدارتی نظام کو اپنانے کی ٹھوس بنیاد اردوان کے دور میں رکھی گئی ہے۔ ترکی میں صدارتی نظام کے بارے میں عوام کو ہمیشہ منفی خیالات سے آگاہ کیا جاتا رہا ہے اور اسے ملک کے لئے خطرناک گردان کر عوام کو گمراہ کیا جاتا رہا ۔ترکی کو مزید خوف زدہ کرنے کے لئے ملک میں دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ شروع کرایا گیا جس کی ذمہ داری ہمیشہ کرد جماعت پی کے کے نے قبول کی جسے مغرب کی پس پردہ حمایت حاصل ہے ۔مخالفین یہ سمجھتے ہیں کہ اگر صدارتی نظام نافذ ہو گیا تو وہ صدارتی محل میں داخل ہونے کے لئے پچاس فیصد ووٹ کسی صورت حاصل نہیں کر پا ئیں گے’ البتہ پارلیمانی نظام میں مختلف جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی جا سکتی ہے۔ مارشل لاء بھی ان کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہوتا ہے۔ بائیں بازو کی جماعتیں اسی راستے سے اقتدار کا فیض حاصل کر تی رہی ہیں ۔حالیہ فوجی بغاوت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی ۔ترک عوام نے اردوان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر عدیم النظیر قربانیوں سے جہاں عالم اسلام کو آئینہ دیکھایا وہیں ترکی کی تاریخ کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ بغاوت ناکام ہوئی تو داعش کے تعاون سے دہشت گردانہ حملوں کے ذریعے ترک عوام میں خوف وہراس پھیلا کر ان کے حوصلے پست کرنے کی چال چلی گئی لیکن سلام ہے ترک عوام کو جنہوں نے اردوان کے ساتھ کھڑے ہو کر ترکی کو تباہی سے بچا لیا ۔مخالفین کا خیال تھا کہ اردوان ڈر کر صداررتی نظام کا خیال دل سے نکال دیں گے لیکن انہوں نے برملا چٹان کی طرح مضبوط عزم سے کہا کہ وہ کبھی بھی دہشت گردوں کے سامنے نہیں جھکیں گے۔
ترکی میں صدارتی نظام کے لئے طریقہ کار یہ ہے کہ اگر پارلیمان کے 550میں سے 330ارکان صدارتی نظام کے حق میں ووٹ دیں تو پھر صدارتی نظام قائم کرنے کے لئے ریفرنڈم کرایا جائے گا ۔اگر صدارتی نظام کے حق میں 367ووٹ آ جائیں تو پھر ریفرنڈم کی ضرورت نہیں رہے گی ۔پارلیمان نے 337کے مقابلے میں 347سے صدارتی نظام کے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے۔ اردوان جسے مغرب اور دیگر مخالفین خلافت کی نشاہ ثانیہ کا سلطان کہتے ہیں لیکن اردوان نے ان کے منہ پر زور دار تھپٹریہ کہہ کر رسید کردیا کہ اگر انہیں 367ووٹ بھی پارلیمان سے ملے تب بھی وہ عوام میں جا کر ریفرنڈم کے ذریعے ان کی رائے لیں گے ۔ان کے بقول عوامی رائے کے بغیر جو تبدیلی آتی ہے وہ ناپائیداراور غیر مستقل ہو تی ہے ۔ ترکی میں متعارف کرایا جانے والا صدارتی نظام امریکہ کے نظام سے نوے فیصد ملتا ہے ۔صدارتی نظام میں انتظامیہ ،مقننہ ،عدلیہ کے درمیان توازن قائم رہتا ہے اور تینوں ادارے آزادی سے فیصلہ کرنے کے مجاز ہوتے ہیں ۔صدارتی نظام میں مقننہ کو انتظامیہ کو کالعدم قرار دینے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔
نئی ترامیم کے بعد پارلیمنٹ میں ارکان کی تعداد 550سے 600تک بڑھا دی جائے گی۔رکن پارلیمنٹ کی عمر 25 سال سے کم کرکے 18سال کر دی جائے گی ۔ارکان اسمبلی اور صدر کا انتخاب ایک ہی روز ہوں گے اور آئندہ یہ انتخاب 2019 میں ہوں گے صدارتی امیدوار کا نام سیاسی جماعتوں جنہوں نے اس سے قبل کے انتخاب میں کم ازکم 5%ووٹ لئے ہوں یا ایک لاکھ ووٹروں نے انہیں گذشتہ انتخاب میں ووٹ دئے ہوں’ صدارتی الیکشن لڑ سکتا ہے۔ صدر کو انتظامی اختیارات سے متعلقہ معاملات میں حکم نامہ جاری کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ صدرکو ملک میں حالت جنگ ،انتشار ،بغاوت’ملک اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے اور ملک کو اندرون اور بیرونی خطرات سے دو چار کرنے والی تشدد آمیز تحریکوں کے پھیلنے کی صورت میں ہنگامی حالت نافذ کرنے کا مکمل اختیار ہوگا ۔ بجٹ بارے قانونی بل صدرکی جانب سے تیار کیا جائے گا لیکن منظوری پارلیمنٹ دے گی۔ پارلیمنٹ ہی صدر کے اخراجات کا تعین کرے گی تمام بین الاقوامی معاہدوں اور سمجھوتوں کی منظوری صدر ہی سے حاصل کی جائے گی تاہم صدر کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ کو بھی ان معاہدوں اور سمجھوتوں کی منظوری دینا ہو گی ۔صدر کو دو بار صدارتی عمل میں حصہ لینے کی اجازت ہو گی ۔صدارتی امیدوار کی عمر چالیس سال اور یونیورسٹی گریجوایٹ ہونا لازمی ہو گا۔
صدر کو پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت نہ ہو گی ۔صدر کابینہ کے اراکین کو پارلیمنٹ کے باہر سے منتخب کرے گا۔ پارلیمنٹ کے اندر سے کسی کو وزیر نہیں بنایا جائے گا ۔سفیروں اور اعلی بیوروکریٹس کو صدر نامزد کرے گا ۔پارلیمنٹ صرف ایک ایوان پر مشتمل ہو گی۔ صدر اپنی پارٹی کا سربراہ ہو گا صدر کو اس عرصے کے دوران اس کے عہدے سے غداری کے الزام کے سوا کسی اور الزام میں برطرف نہیں کیا جا سکتا ۔صدارتی نظام کی راہ ہموار کرنے کے لئے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ کو ملت پرست حرکت پارٹی کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔صدر طیب نے عوام سے ریفرنڈم میں صدارتی انتخاب کی حمایت کے لئے مہم کا آغاز 7فروری سے کر دیا ہے ۔ضابطے کے مطابق 16اپریل کو عوام کے فیصلہ دینے کا وقت طے ہوا ہے ۔اردوان کو کامل یقین ہے کہ عوام نے جس طرح بغاوت کو ناکام بنانے میں ان کا ساتھ دیا اسی طرح ترکی میں صدارتی انقلاب لا کر ان کو سرخرو کریں گے۔