تحریر : عبدالحمید۔ ملتان جب امیر جماعت الدعوہ پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید کی نظربندی کا اعلان ہوا تو میں سوچ رہا تھا کہ اک ایسے شخص کی نظربندی کے آرڈر جاری کرنا کسی حماقت سے کم نہیں جو بغیر کسی خوف و خطر کے ملک کے کونے کونے میں جا جا کر امت کو جوڑنے کی بات کر رہا ہے۔جو لوگوں کو فرقہ پرستی و تعصب سے نکال کر دفاع پاکستان کونسل، تحریک حرمت رسولۖاور تحریک آزادی جموں و کشمیر کے نام پر تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں کو جمع کرکے ایک نظر یئے پر کھڑا کرتے ہیں۔ وہ نظریہ کوئی ڈھکا چھپا نہیں بلکہ وہی دو قومی نظریہ ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کو لاکھوں قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا تھا۔
“نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے” کا نعرہ لگا کر لوگوں کو نظریہ پاکستان پر کھڑا کرنے کے بعد ملک کے دفاع کیلئے پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر دشمن کے خلاف ڈٹ جانے کا عزم کرنے والے مرد مجاہد کیخلاف کاروائی کرنا سوائے دشمن کو خوش کرنے کے اور کیا ہو سکتا ہے ۔حافظ سعید وہ ذات ہیں کہ جن کو پاکستان کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے تمام الزامات سے باعزت بری کیا ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ میرے خلاف یا میری جماعت کے کسی ساتھی کے خلاف ملک کے اندر کوئی ایک ایف آئی آر دکھا دو میں سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں ۔ایسے شخص کو محض غیر ملکی دبائو کی بنیاد پر پابند سلاسل کرنا امت مسلمہ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
حافظ سعید صاحب کو جب نظر بند کیا گیا تو ملک کے کونے کونے سے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سڑکوں پر نکلے اور حافظ سعید کے کی نظربندی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرتے نظر آئے۔ان مظاہروں میں تمام سیاسی پارٹیاں چاہے وہ مسلم لیگ (ن) ہو یا مسلم لیگ (ق)، پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف، وکلاء ہوں یا ججز، اساتذہ ہوں یا طلباء ، ڈاکٹرز ہوں یا کسان، حتی کہ ملک میں رہنے والی سکھ و ہندو برادری بھی ملک کے مسیحا کے لیے سڑکوں پر نکل کھڑی ہوئی، جب ان لوگوں سے پوچھا کہ تم لوگ تو ہندو ہو تمہیں حافظ سعید سے کیا سروکار تو جواب میں ہندو بولے کہ حافظ سعید صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ انسانیت کا مسیحا ہے۔جماعت الدعوہ کے ذیلی ادارے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے ہمیشہ انسانیت کی فلاح و بہبود کا کام کیا، چاہے وہ تھرپارکر کا تپتا صحرا ہو یا بلوچستان کے پہاڑ، ملک میں کوئی سیلاب آئے یا زلزلہ، روڈ پر کوئی حادثہ ہو یا ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر پڑے مریض کو خون کی ضرورت، بارڈر پر انڈین آرمی کی طرف سے گولہ باری سے متاثر ہونے والے خاندان یا کسی پلازے میں لگنے والی آگ، ہر مصیبت میں سرکاری اداروں سے بڑھ کر لوگوں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکار اپنی جانوں پر کھیل کر لوگوں کی جان بچانے کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں۔
Jamaat-ud-Dawa
فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے اب تک پاکستان میں 3500 بچوں کی کفالت، 802 ایمبولینسز، 200 تعلیمی ادارے، 10 بڑے ہسپتال، 6513 فری میڈیکل کیمپ، لاکھوں افراد کے لئے سحری و افطاری کا اہتمام، تھرپارکر میں 2782 پانی کے منصوبے جن میں واٹر پمپ اور کنویں شامل ہیں، گلگت بلتستان میں 170 پانی کے کنویں اور 135 ہینڈ پمپ لگائے ہیں۔60000 رضاکار ہمہ وقت امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
امدادی سرگرمیوں کے علاوہ بھی حافظ سعید کے جو جرائم ہیں وہ بھی آپکو بتا دیتے ہیں۔حافظ سعید کا پہلا جرم یہی ہے انہوں نے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی ۔سال 2017 کو کشمیر کی آزادی کے نام کیا اور بالخصوص 26جنوری سے5 فروری تک عشرہ کشمیر منانے کا اعلان کیا، دوسرا جرم یہ ٹھہرا کہ بلوچستان میں بلوچ رہنماؤں کی حکومت پاکستان سے تمام ناراضگیوں کو ختم کر کے پاک فوج اور پاکستان کا پشیبان بنانا، تیسرا جرم یہ کہ پوری دنیا میں مظلوم مسلمانوں کے لئے خوراک، ادویات اور شیلٹر فراہم کرنے کے لئے دن رات تگ و دو کرنا، ملکی نظریاتی حدود کی حفاظت کیلئے عوام میں آگاہی پیدا کرنا انکا چوتھا جرم ٹھہرا، پانچواں جرم یہ کہ ملک میں دفاع پاکستان کونسل قائم کرکے تمام مکاتب فکر کو ایک سٹیج پر جمع کرکے فرقہ وارانہ دہشت گردی کا خاتمہ کیا اس کے علاوہ تھرپارکر و بلوچستان اور ملک کے کونے کونے میں لوگوں کی تربیت کے لئے سکول و کالج اور مراکز قائم کئے۔
حافظ سعید وہ شخص ہے کہ جس کو نہ کرسی کی ضرورت اور نہ کسی عہدے کی، الیکشن اور ووٹوں سیاست سے بالاتر ہوکر ملک میں انسانیت کی خدمت کا جذبہ لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔جیسے ہی نظر بندی کے آرڈر جاری ہوئے تو فوری حافظ صاحب نے اپنی جماعت کے کارکنان کے نام پیغام دیا جس میں انہوں نے واضح طور پر یہ بات کہی کہ “میرے کشمیری بھائیو، جماعت کے کارکنو، جماعت سے محبت کرنے والو اور جہاں تک میری آواز جارہی ہے میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ اس وقت بیرونی دباؤ اور پریشر کی وجہ سے میری گرفتاری کا اعلان ہوا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارا کچھ امریکہ اور انڈیا کے دباؤ کی وجہ سے ہماری حکومت پریشان ہو کر یہ کام کر رہی ہے کیونکہ پاکستان میں تو جماعت الدعوہ کا ایسا کوئی کردار نہیں کہ جس میں ملک پاکستان کو یا پاکستان کی عوام کو کوئی نقصان پہنچا ہو۔
Kashmiri
بہر کیف گرفتاری کی کوئی پرواہ نہیں ہے ہم اپنے موقف پر اسی طرح قائم ہیں اور رہیں گے، “بھائیو! پریشان نہیں ہونا اور کسی بھی ردعمل کا شکار نہیں ہونا غیر قانونی کوئی کام نہیں کرنا، میری یا جماعت الدعوہ کی قیادت کی گرفتاری سے کشمیر کی تحریک کو دبایا نہیں جاسکتا، تو بھائیو آپ نے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کرنی بلکہ کشمیر کی تحریک کو مزید تیز کرنا ہے”حافظ سعید کے دل میں امت مسلمہ کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
بقول اقبال؛ “اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے” اس شعر کے مصداق جہاں پر بھی مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو سب سے پہلے حافظ سعید ہی اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور انکی جہاں تک ہوسکے مدد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے محب وطن شہری کو نظر بند کرنا بلا جواز ہے لہذا حافظ سعید کی نظر بندی کو فوری ختم کریں کیونکہ اس وقت ملک کا بچہ بچہ حافظ سعید کے ساتھ ہے اور یہی آواز بلند کر رہے ہیں کہ حافظ سعید سے رشتہ کیا. . . . ؟ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور حافظ سعید صاحب کے الفاظ بھی یہ ہیں کہ “میں چھوڑ سکتا نہیں ساتھ استقامت کا میری اذان سے جوش بلال مت چھینو ”