تحریر: شیخ توصیف حسین کہاوت ہے کہ ایک طوطا اپنی طوطی کے ہمراہ ایک ایسے ملک میں پہنچا کہ جس کی عوام متعدد پریشانیوں سے دوچار ہو کر بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بن کر نہ صرف اپنے معصوم بچوں کو فروخت کرنے میں مصروف تھی بلکہ بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر دو وقت کی روٹی کے حصول کی خاطر در بدر کی ٹھو کریں کھا رہی تھی اس اذیت ناک منظر کو دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھا کہ اس ملک کی عوام اتنی اذیت ناک زندگی کیوں گزار رہی ہے آخر اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے یہ سن کر طوطے نے طوطی سے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ اس ملک پر کسی الو حاکم کی حکومت ہو جس کی وجہ سے یہاں کی عوام بدحالی کا شکار ہے۔
طوطا ابھی یہ بات اپنی طو طی سے کر ہی رہا تھا کہ اسی دوران اس کی بات ایک الو نے سن لی جس کو سن کر الو نے بڑے پیا ر و محبت سے طو طے اور طو طی کو کھا نے کی دعوت دے ڈالی قصہ مختصر کہ طو طا جن الو کی دعوت کھا کر اپنی طو طی کے ہمراہ واپس جا نے لگا تو الو نے طو طے سے کہا کہ اس طو طی پر اب میرا حق ہے لہذا تم اب واپس اکیلے جائو گے یہ سن کر طو طا پریشان ہو کر الو سے جھگڑنے لگا بالآ خر طو طا اس جھگڑے کو لیکر حاکم وقت کے پاس پہنچ گیا جبکہ اسی دوران الو حاکم شہر جو لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصا فیوں کی تاریخ رقم کر نے میں مصروف عمل تھا کو بھاری نذرانہ دینے کے بعد طو طی کا فیصلہ اپنے حق میں کروانے میں کا میاب ہو گیا۔
طو طا اس فیصلے کو سن کر پہلے مسکرا یا اور بعد ازاں رو نے لگ گیا طو طے کی اس حالت کو دیکھ کر حاکم وقت نے طو طے سے پوچھا کہ میرے فیصلے کو سن کر پہلے مسکرائے اور بعد ازاں رو نے لگ گے آ خر کیوں جس پر طو طے نے حاکم وقت سے کہا کہ آ پ کے فیصلے کو سن کر جو میں پہلے مسکرایا تھا اس کی وجہ آپ کی خو شامدی کا بینہ ہے جو آپ کے ہر غلط فیصلے پر آپ کی تعریف کر نے میں مصروف عمل ہے اور رونے اس لیئے لگ گیا تھا کہ آپ کے غلط فیصلے کی وجہ سے میری زندگی تباہ و بر باد ہو کر رہ جائے گی یہ کہہ کر طو طا وہاں سے جا نے لگا تو الو نے طوطے کو کہا کہ تم اپنی طو طی کو اپنے ہمراہ لے جائو یہ ڈرامہ میں نے محض آپ کو سمجھا نے کیلئے کیا ہے کہ ملک الو حاکمین کی وجہ سے نہیں بلکہ لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر نے والے حاکمین کی وجہ سے تباہ و بر باد ہو تا ہے بالکل اسی طرح آج ہمارا ملک و قوم مفاد پر ست سیاست دانوں کی وجہ سے تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہو نے کے بجائے پسماندگی کی راہ پر گامزن ہو کر رہ گیا ہے جبکہ یہاں کی عوام مختلف پریشانیوں میں مبتلا ہو کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان واحد ملک ہے جو ازخود تو مقروض ہے لیکن اس میں وزراء کی تعداد چھیانوے جبکہ مشیروں کی تعداد علیحدہ بتائی جاتی ہے اور اگر آپ ان وزرا اور مشیروں کے سالانہ اخراجات کا تخمینہ لگائے تو وہ کئی ارب بنتے ہیں جبکہ دیگر سہو لیات جس میں مو بائل فو نز بجلی و گیس کے علاوہ وی آئی پی ہوائی ٹکٹ وغیرہ سر فہرست ہیں وہ علیحدہ جبکہ دوسری جانب اگر آپ غیر مسلم ممالکوں کا اندازہ لگائے تو حیران و پریشان ہو جائے گے چونکہ چین میں وزراکی تعداد چودہ بتائی جاتی ہے انڈیا میں بتیس امریکہ میں چودہ اور بر طانیہ میں وزرا کی تعداد بارہ بتائی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں غیر مسلم ممالک دن بدن تعمیر و ترقی کی راہ پر گا مزن جبکہ وہاں کی عوام ہر غم سے بے نیاز خوشحال زندگی گزار رہی ہے جبکہ دوسری جانب ہمارا ملک ہے جو ان مفاد پر ست سیاست دانوں کی لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے بد حالی کا شکار ہو کر بھکاری ملکوں کی صف میں آ کھڑا ہوا ہے جبکہ یہاں کی عوام لا تعداد پر یشانیوں میں مبتلا ہو کر اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہو کر رہ گئی ہے یہاں تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ اس ملک کے مفاد پر ست سیا ست دان اپنا علاج معالجہ تو یہاں کی ڈاکٹروں کی فوج کے ہمراہ بیرون ممالکوں میں کرواتے ہیں جبکہ یہاں کی عوام اکٹروں کی عدم توجہ اور بالخصوص سر کاری ہسپتا لوں میں ادویات اور بیڈوں کے نہ ملنے کے سبب مذکورہ ہسپتالوں کے فرشوں پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بے بسی اور لا چارگی کی موت مر رہی ہے یہی کافی نہیں اس ملک کی لا تعداد عوام بھوک اور افلاس ست تنگ آ کر اپنا خون اور گردے یہاں تک کہ اپنی جواں سالہ بچیوں کو فروخت کر نے میں مصروف وعمل ہیں آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس ملک میں غریب کیلئے اور قانون اور امیر ترین شخص کیلئے اور قانون ہے اس ملک میں اگر کوئی غریب شخص روٹی چراتے ہوئے پکڑا جائے تو اُسے ہمارے قانون کے رکھوالے سخت بے عزت کرنے کے بعد بند سلاسل کر دیتے ہیں اور اگر کوئی اس ملک کا مفاد پر ست سیاست دان اربوں روپے خرد برد کر لے تو ہمارے قانون کے رکھوالے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں یاد رہے کہ جس طرح جنگل میں خونخوار درندے اپنے بچوں کو شکار کر نے کے گر سکھاتے ہیں بالکل اسی طرح اس ملک میں متعدد مفاد پرست سیاست دان اپنے بچوں کو لوٹ مار کے گر سکھانے کیلئے بلدیاتی نظام کے رائج ہوتے ہی انھیں چیر مین بلدیہ بنانے کیلئے نہ صرف اپنا سیاسی اثر رسوخ استعمال کرتے ہیں بلکہ بے ضمیر افراد کے ووٹ خریدنے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کر دیتے ہیں۔
Poverty
یہاں تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ جو مفاد پرست سیاستدان کسی غریب شخص کی بیٹی کو جہیز تک نہیں دے سکتا کسی مظلوم شخص کو عدل و انصاف نہیں دے سکتا اور جو بھوک اور افلاس سے تنگ اشخاص کو خوشحال رکھنے میں قاصر رہا ہو اور جو کسی غریب شخص کے بچوں کو تعلیم جیسے زیور سے آ راستہ کرنے میں قاصر ہو اور جو یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں کو دو وقت کی روٹی دینے میں قاصر ہو اور جو اپنے ضلع کو تعمیر و ترقی پر گامزن کر نے میں قاصر ہو اور اگر وہ مفاد پر ست سیاست دان بلدیاتی نظام کے دوران اپنے بچے پر جو کہ چیر مین بلدیہ کا خواہش مند ہو پر کروڑوں روپے خرچ کر دے اور عوام سے یہ کہے کہ میرا بیٹا آپ کے بنیادی حقوق کا ضامن ہے تو یہ ایک سفید جھوٹ ہے در حقیقت تو یہ ہے کہ یہ بھی ایک راز ہے جو کہ مفاد پر ست سیاست دان کے مفاد سے وابستہ ہے یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کسی ایک ملک کا بادشاہ جو لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصا فیوں کی تاریخ رقم کر نے میں مصروف تھا اگر اُس کے دور حکو مت میں رعایا کا کوئی شخص و فات پا جا تا تو بادشاہ اُس کی پیٹھ پر تشدد کروانے کے بعد کفن دیکر دفنا دیتا تھا وقت اسی طرح گزر رہا تھا کہ ایک بادشاہ بہت علیل ہو گیا جس پر اُس نے اپنے بیٹے کو بلا کر کہا کہ میرا وقت قریب آ گیا ہے۔
لہذا میری وفات کے بعد تم اپنی دور حکو مت میں ایسے کام کر نا جس سے عوام مجھے اچھا کہنے لگ جائے بادشاہ کی و فات کے بعد جب اس کا بیٹا بادشاہ بنا تو وہ لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصا فیوں کی تاریخ رقم کر نے کے ساتھ ساتھ ہر و فات پانے والے شخص کی پیٹھ پر نہ صرف شدید تشدد کرواتا بلکہ اسے بغیر کفن کے دفنا دیتا تھا جس کے نتیجہ میں اُس کی رعایا اُسے بُرا سمجھنے لگی جبکہ اس کے باپ کو اچھا بالکل یہی کیفیت اس ملک کے مفاد پر ست سیاست دانوں کے چیر مین بلدیہ کے بیٹوں کی ہے جو تعمیراتی کا موں میں کروڑوں روپے کے غبن کر نے کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی مخالفین جن میں ماتحت عملہ بھی شامل ہے کو اس قدر پریشانی سے دو چار کر دیتے ہیں کہ بعض ما تحت عملہ اپنی نو کری چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر جاتے ہیں کیا کسی نے خوب کہا ہے کہ دولت کے آ جانے سے شخصیت تو بدل جا تی ہے لیکن اوقات نہیں آ خر میں بس یہی کہوں گا۔
کہ بالآ خر کٹ ہی جائے گی یہ ظلم و ستم اور ناانصا فیوں کی زنجیریں یاروں میں تو بے رحم وقت کی تقدیر کو بدلنے کیلئے چلا ہوں یاروں