امن کے دشمن

Gulshan Iqbal Park Blast

Gulshan Iqbal Park Blast

تحریر: ڈاکٹر بی اے خرم
تیرہ فروری کو تحریب کاروں نے 10 ماہ 18 روز بعد صوبائی دارالحکومت لاہور میں قیامت صغری برپا کر دی۔ اس سے قبل لاہور میں 27 مارچ 2016ء کو ایسٹر کے تہوار کے موقع پر دہشتگردوں نے علامہ اقبال ٹائون کے گلشن اقبال پارک میں دھماکہ کیا تھا جس میں بچوں اور خواتین سمیت درجنوں افراد جاں بحق اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہو گئے۔

دہشتگردوں نے 10ماہ اور 18 روز بعد صوبائی دارالحکومت کی معروف شاہراہ مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے سامنے ڈرگ ایکٹ ترمیمی بل کیخلاف احتجاجی دھرنے کے دوران خود کش دھماکہ کیا جس میں متعدد افراد شہید اور درجنوں زخمی ہو ئے ۔مال روڈ پر دھماکے میں ڈی آئی جی ٹریفک لاہور کیپٹن (ر) احمد مبین اور ایس ایس پی زاہد گوندل سمیت 16 افراد شہید ہوگئے جب کہ متعدد افراد زخمی ہوگئے جن میں پولیس اہلکار اور ٹریفک وارڈنز بھی شامل ہیں لاہور کے علاقے مال روڈ پر چیئرنگ کراس کے قریب ادویہ ساز کمپنیوں اور میڈیکل اسٹورز کے مالکان کا احتجاج جاری تھا کہ اس دوران 6 بج کر 7 منٹ پر زور دار دھماکا ہوا جس کے بعد جائے وقوعہ پر بھگدڑ مچ گئی جب کہ دھماکے کی جگہ آگ لگ گئی اور دھواں اٹھنے لگا۔

Lahore Blast

Lahore Blast

دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکار اور ٹریفک وارڈنز سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے جن میں بعض شدید زخمی ہوئے ہیں، دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس سے قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے جب کہ قریب کھڑی گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ دھماکے کے بعد جائے وقوعہ کے قریب موجود لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا دھماکے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو ،پولیس اور بم ڈسپوزل سکواڈکی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں جبکہ پاک فوج اور رینجرز کے دستے بھی موقع پر پہنچے اور سکیورٹی فرائض سر انجام دئیے،مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے سامنے دھماکے کرنے والے خود کش حملہ آور کی عمر20سے 22سال کے درمیان تھی دھماکے میں 6سے 8کلو گرام بارود استعمال کیا گیا ۔جائے وقوعہ سے خود کش حملہ آور کی ٹانگ ، ہاتھ اور جبڑا ملا ہے جسے فرانزک لیبارٹری بھجوا دیا گیا ہے جبکہ ہاتھ کی انگلیوں کے فنگر پرنٹس بھی لے لئے گئے ہیں جس سے حملہ آور کی شناخت ظاہر ہونے میں مدد ملنے کا امکان ہے۔

صدر مملکت ممنو ن حسین ، وزیر اعظم محمد نواز شریف ، گورنر ملک محمد رفیق رجوانہ ، وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز ،وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ، وزیر اعلیٰ خیبر پختوانخواہ پر ویز خٹک، وزیر اعلیٰ خیبر پختوانخواہ ثنا اللہ زہری ، سابق صدر مملکت آصف علی زرداری ، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ، مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سمیت دیگر نے لاہور میں ہونے والے دھماکے میں ہلاکتوں پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گرد عناصرکے مذموم مقاصد کی شدید مذمت کی ہے۔

عجیب بات ہے لاہور میں ہونے والوں مظاہروں اور ریلیوں کے دوران دفعہ 144نافذ کی جاتی رہی ہے لیکن اتنے بڑے احتجاجی مظاہرے کو کیوں نظر انداز کیا گیا۔۔؟ دہشت گرد کیسے حملہ آور ہوئے۔۔۔؟ دہشت گرد عناصر کے سہولت کار کون ہیں ۔۔۔؟ملک کے سیکیورٹی ادارے کیوں ناکام ہوئے۔۔؟ واضح رہے کہ نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی کی جانب سے اسی ماہ 7 فروری کو کو چیف سیکریٹری پنجاب کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں کہا گیا تھا ”کہ لاہور میں دہشت گردی کی کسی بڑی کارروائی کا خدشہ ہے۔

خط میں بتایا گیا تھا کہ دہشت گرد تعلیمی اداروں یا اسپتالوں کو نشانہ بناسکتے ہیں، لاہور کی سیکیورٹی سخت کردی جائے”اتنا واضح پیغام ملنے کے باوجودریاستی اداروں کی غفلت کا مظاہرہ سمجھ سے بالا تر ہے دہشتگرد ملک کے دشمن ہیں ان سے سختی سے نمٹنا ہوگا ،بزدل دہشت گردوں نے آسان حدف کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے ،دہشت گردوں کا صفایا کرکے ہی مکمل امن قائم کیا جا سکتا ہے۔

دہشت گرد انسانیت کے دشمن سفاک قاتل ہیں ان کے خلاف بے رحم آپریشن ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے حالیہ دہشت گردی کا واقعہ حکومتی اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ، دہشتگردی کی دھمکیوں کے باوجود سیکیورٹی کے انتظامات پر حکومت پر سوالیہ نشان ہے ،حکومت عوام کو سیکیورٹی فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے ، دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ، دہشتگردی کے خاتمے کے تمام اقدامات اٹھائیں جائیں،امن کے دشمن دہشت گردعناصر نے ملک عزیز میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی ہے تخریب کاروں کے مذموم مقاصد کو خاک میں ملانے کے لئے حکومت وقت کو معزز شہریوں کی حفاظت کے لئے عمدہ حکمت عملی اپنانا ہوگی تاکہ آئندہ ایسے المناک سانحات رونما نہ ہوں۔

Dr.B.A.Khurram

Dr.B.A.Khurram

تحریر: ڈاکٹر بی اے خرم