تحریر: صاحبزادہ عتیق الرحمن دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق نا صرف اپنی زندگیاں گزارتے ہیں بلکہ وطن اور معاشرے کی روایات اور کلچر کو بھی زندہ رکھنے کیلئے اقدامات کرتے ہیں۔ اور جب بھی کسی قوم نے اپنی روایات اور کلچر کی بجائے غیروں کے کلچر اور ثقافت کو اپنایا تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غیروں کے رسم و رواج میں ایسے گم ہوئے کہ — کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا جیسا کہ پاکستان میں ویلنٹائین ڈے کے حوالے سے دھما چوکڑی مچائی جاتی ہے۔
مغرب کے ویلنٹائین ڈے (یوم عاشقاں) اور مغربی تقلید میں اندھی پاکستانی قوم میں ہر سال ویلنٹائین ڈے کے بڑھتے اثرات کو دیکھتے ہوئے ہم نے یورپ کے ممتاز شاعر ملک عاکف غنی کی مدد سے ویلنٹائین ڈے کی اس مغربی رسم کی بارے میں جو تحقیق اور مطالعہ کیا وہ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔ عصر حاضر میں عیسائیوں کاسب سے مشہورتہوارعید حب (Valentine Day) ہے جسے ہر سال چود ہ فروری کو مناتے ہیں اور اس سے انکا مقصد اس محبت کی تعبیر ہے جسے اپنے بت پرست دین میں حب الہی کا نام دیتے ہیں۔
یہ عید آج سے تقریبا ۱۷۰۰ سال قبل ایجاد کی گئی تھی ، یہ اس وقت کی بات ہے جب اہل روم میں بت پرستی کا دور دورہ تھا چنانچہ جب ان میں سے والنٹائن نامی راہب نے جو پہلے بت پرست تھا نصرانیت قبول کرلی تو اس وقت کی حکومت نے اسے قتل کردیا ، پھرجب بعد میں اہل روم نے نصرانیت قبول کرلی تو اسکے قتل کے دن کو شہید محبت کاتہوار بنالیا اور آج تک یورپ و امریکا میں یہ عید منائی جارہی ہے تاکہ اس موقعہ سے دوستی و محبت کے جذبات کا اظہار ہو اور شادی شدہ جوڑے اور عشق و معاشقہ کرنے والے افراد اپنے عہد محبت کی تجدید کرلیں، اسطرح انکے یہاں معاشرتی اور تجارتی طور پر اس عید کو خاص اہتمام حاصل ہوگیا ہے ۔ اصل میں انکے یہاں عید محبت تین تہواروں کا مجموعہ ہے ،یا یہ کہئے کہ اس موقعہ پر تین وہ مناسبتیں جمع ہیں جنکی وجہ سے یہ تہوارمنایاجاتا ہے۔
(1 ) انکے عقیدہ کے مطابق ہر میلادی سال چودہ فروری کی تاریخ یونو نامی دیوی کا مقدس دن ہے ، یہ دیوی جسے یونانی معبودوں کی رانی اور عورت و شادی کی دیوی کہتے ہیں
(2) ۱۵فروری کا دن انکے عقیدہ کے مطابق لیسیوس دیوی کا مقدس دن ہے ، درحقیقت یہ ایک مادہ بھیڑیا سے عبارت ہے جس نے اہل روم کے عقیدہ کے مطابق شہر روما کو آباد کرنے والے دوشخصوں رومیولوس اور ریمولس کو دودھ پلایا تھا ، آج بھی روما میں انکے بڑے مجسمے نصب ہیں جسمیں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ گویا ایک مادہ بھیڑیا انہیں دودھ پلارہی ہے ، اس عید کا میلہ ال لیسوم نامی عبادت گاہ میں لگتا تھا جس کا معنی ہے ” عبادت گاہ محبت ” اس عبادت گاہ کو یہ نام اس لئے دیا گیا کہ مادہ بھیڑیا نے ان دونوں بچوں کو دودھ پلایا اور ان سے محبت کی تھی۔
(3)رومانی بادشاہ کلاو دیوس کو ایک بار جب لڑائی کیلئے تمام رومی مردوں کو فوج میں شامل کرنے میں مشکل پیش آئی اور اس نے غورکیاکہ اسکا اصل سبب یہ ہے کہ شادی شدہ مرد اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر لڑائی کیلئے نہیں جانا چاہتے تو انہیں شادی کرنے سے روک دیا ، لیکن والنٹائن نامی ایک راہب نے شہنشاہ روم کے حکم کی مخالفت کی اور چوری چھپے کنیسہ میں لوگوں کی شادیاں کرتا رہا ،جب بادشاہ کو اسکا علم ہوا تو اس نے اسے گرفتارکرکے۱۴فروری ۲۶۹ ء کو قتل کردیا ، اس طرح کنیسہ نے مذکورہ بالا بھیڑیا لیسیوس کی پوجا کی جانے والی عید کو بدل کر والنٹائن نامی شہید راہب کے پوجا کی عید بنادیا ، آج بھی یورپ کے شہروں میں اسکا مجسمہ نصب ہے ۔ پھر بعد میں ۱۹۶۹ ء کو کنیسہ نے راہب والنٹائن کی عید منانے کو غیر قانونی قرار دے دیا کیونکہ انکے خیال کے مطابق یہ میلے ایسی خرافات سے عبارت ہیں جو دین و اخلاق سے میل نہیں رکھتے ، اسکے باوجود آج بھی عام لوگ اس عید کو مناتے اور اسکا اہتمام کرتے ہیں۔
اس عید کے موقعہ پر کیا ہوتاہے : (1) مرد و عورت کے درمیان ایک خاص قسم کے کارڈ کا تبادلہ ہوتا ہے، جس پر لکھا ہوتا ہے : (Be My Valentine ) \”میرے والنٹائن محبوب بنو\” ۔ (2)مرد و عورت کے درمیان سرخ گلاب کے پھولوں کا تبادلہ ہوتا ہے ۔ (3) مردو عورت کے درمیان مٹھائیوں، خاص کر سرخ مٹھائیوں کا تبادلہ ہوتاہے ۔ (4) خدائے محبت \”Cupid\”کی تصویر بنائی جاتی ہے ، جو ایک بچے کی شکل ہے جسکے ہاتھ میں ایک کمان ہے جس سے وہ اپنی محبوبہ کے دل میں تیر پیوست کررہا ہوتا ہے۔
یہ تو تھی تاریخی حقیقت ویلینٹائین ڈے کی کہ جس سے یورپ کی نوجوان نسل کی اکثریت آگاہ نہیں ہے انکے لیے یہ دن صرف اپنی بیوی یا گرل فرینڈ کو اپنے پیار کا احساس دلانے کے لیے کسی طریقے سے اظہار کرنا ضروری ہے۔ خواہ شام کو کام سے واپسی پر سرخ گلابوں کا گلدستہ ہو یا کوئی پسندیدہ تحفہ اور یا پھر کسی اچھے سے ریسٹورنٹ پر ڈ نر ، ریستورانوں پر خصوصی مینو تیار کئے جاتے ہیں ۔ فرانس میں بھی نوجوان لڑکے ، لڑکیاں اور شادی شدہ مردوخواتین کا ویلینٹائین ڈے منانے کا یہی طریقہ ہے۔ نہ ہی بازاروں میں کوئی خصوصی رش ہوتا ہے نہ ہی کالج و یونیورسٹیوں میں چھٹی ہے اور نہ ہی کوئی شخص دفتر یا کارخانے سے چھٹی کرتا ہے۔ روز مرہ کے دنوں کی طرح کا ایک دن ہوتا ہے جس کی خصوصی اہمیت صرف ان لوگوں کے دلوں میں ہوتی ہے۔ جنکا کوئی افیئرہوتا ہے کوئی گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ ہوتا ہے یا شادی شدہ ہوتے ہیں اور انکی کوشش ہوتی ہے کہ سال بھر کے تمام دنوں کی اپنی اپنی مصروفیات کو بھول کر چودہ فروری کی شام کو اپنے پارٹنر کو سرخ گلابوں کے گلدستے ، چاکلیٹ ،قیمتی تخفے وتخائف یا کسی اچھے ریستوران میں اسپیشل ڈنر کے ذریعے اپنی محبت کا اظہار کرکے اپنی محبتوں کا بھرم رکھتے ہیں۔
Celebrate Valentine’s Day
اگر پاکستان سے چند نام نہاد سیکولر یا مغربی تہذیب کے دلدادہ فرانس میں چودہ فر وری کو وزٹ پر آئیں تو شاید حیرت اور شرم سے بیہوش ہو جائیں کہ انہیں کہیں بھی ویلینٹائین ڈے نظر نہیں آئے گا اور شائد مایوسی سے انکے اندر کی سیاہی انکے چہروں پر چھلک جائے کیونکہ فرانس کے مقابلے میں ویلینٹائین ڈے کے دنوں میں پاکستانی ٹی وی چینلز دیکھیں تو یہی محسوس ہو تا ہے کہ ویلنیٹائین ڈے یورپ والوں کا تہوار نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے رہنے والے لوگوں کا قومی دن ہے یا کوئی مذہبی تہوار، نجی ٹی وی چینلز ہر چند منٹ کے بعد ویلینٹائین ڈے کے حوالے سے محبت کے پیغام نشر کر رہے ہیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں سے ویلینٹائین ڈے کے حوالے سے انٹرویو کئے جا رہے ہیں۔ بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز کو الیکٹرانک میڈ یا کے ذریعے براہ راست پیغامات دئیے جا رہے ہیں۔
بازاروں اور مارکیٹوں میں ہر طرف ویلینٹائین ڈے کے بینرز ، اشتہارات ، غبارے اور قسم قسم کے کارڈز نظر آتے ہیں ، یا خدایہ کیا ماجرا ہے۔ ہم فرانس میں رہ رہے ہیں ہیں پیرس کی سڑکوں پر ڈرائیور کر رہے ہیں ، دفاتر ، دکانوں اور اسٹورز میں ہر شخص اپنے روزمرہ کے کاموں میں مگن ہیں ۔ یہاں تو زندگی اپنے معمول پر ہے البتہ دن میں گفٹ شاپس اور پھولوں کی دکانوں اور رات کو ریستورانوں کی رونق کو دیکھ کرمحسوس ہوتا ہے کہ کوئی خاص تہوار ہے لیکن اپنے پیارے دیس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جو تصاویر ہمیں نجی ٹی وی چینل دکھا رہے ہیں اور اخبارات میں ملٹی نیشنل کمپنیاں جس طرح کے اخلاق باختہ اشتہارات دے رہی ہیں، موبائیل کمپنیاں ویلنٹائین ڈے کی نسبت جس طرح کے خصوصی پیکجز آفر کررہی ہیں اور جس طرح نئی نسل کے کچے ذہنوں کو پلاننگ کے ساتھ فحاشی اور گمراہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے ، کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے پاس اس کا تدارک کرنے یا قوم کو اس قباحت سے آگاہ کرنے کا وقت نہیں ہے۔
پاکستان میں رمضان المبارک میں اشیائے خور د نوش کی قیمتیں آسمان تک پہنچانے والے منافع خور اور بے ایمان تاجر ویلینٹائین ڈے سے پہلے مختلف چیزوں پر ویلینٹائین سیل لگادیتے ہیں اور بازاروں میں ویلینٹائین شاپنگ کا رش دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ کیا ہمارے اندر سے ایک خوددار اور اپنی معاشرت پر فخر کرنے والی قوم ہونے کا احساس ختم ہو چکا ہے،کیا ہمارے اندر جو اسلام کی روح تھی وہ بے جان ہو گئی ہے۔ کیا ہمارے اساتذہ، والدین اور علمائے کرام نے یہی تعلیم اور تربیت د ی تھی۔ اہل مغرب کی ہر وہ رسم جو بے راہ روی ، بیہودگی،فحاشی اور مادہ پرستی کو فروغ د یتی ہو ، آنکھیں بند کرکے ہم فوراََ اسکی تقلید میں چل پڑتے ہیں۔
خواہ وہ ہماری قومی حمیت پر سوالیہ نشان ہو ، یا ہماری معاشرت اور اسلامی روایات سے متصادم ہو۔ دوسری طرف اہل مغرب کے اچھے اور درست اقدامات انکے عدل و انصاف کے معیار، قانون کی حکمرانی ، وقت کی پابندی ، ملک و قوم سے وفاداری اور سب سے بڑھ کر محنت اور صفائی جیسے اقدمات سے ہم کوسوں دور بھاگتے ہیں اور اگر کوئی کہے کہ ہم لوگ ان اچھے کاموں میں اہل مغرب کی پیروی کیوں نہیں کرتے تو ڈ ھٹائی بھرا جواب ہوگا کہ ہم کیوں عیسائیوں اور یہودیوں کی پیروی کریں۔لیکن ویلینٹائین ڈے ہو یا سال نو کی بدمست تقریبات ہمارے لوگ اہل مغرب کو بھی بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔قوم کے درد میں صبح شام ٹی وی اسکرینوں پر گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانے وا لے دانشوروں اور خود ساختہ تجزیہ کاروں کو جانے کب احساس ہوگا کہ ہماری نئی نسل کو اجتماعی طور پر ناکارہ اور بے راہ رو کیا جارہا ہے اور نجانے کب وہ اس مسئلے کے لئے آواز اٹھائیں گے۔ اور کب ان لغویات سے بچاؤ کے لیے عوام کی رہنمائی کریں گے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کوئی مذہبی یا سیاسی جماعت ہماری نئی نسل کو تباہ کرنے اور بے راہروی کی طرف د ھکیلنے والی رسومات کے خلاف بھی کوئی دھرنا ، کوئی ملین مارچ ہوگا یا پھر کوئی حاکم اعلٰی اپنے مشہور نعرے بدلا ہے پنجاب بدلیں گے پاکستان کی طرز پر عوام کو خالص پاکستانی بنانے کا بھی کوئی نعرہ لگائیں گے۔ لیکن لگتا ہے کہ ایسے نعرے صرف کمیشن اور کرپشن کو چھپانے اور دھرنے اور ملین مارچ صرف لالچ اقتدار یاذ اتی نمود و نمائیش اور یا پھر بیرونی آقاؤں کے اشارے پر ہی کئے جاتے ہیں ۔ اور آثار ایسے دکھائی دیتے ہیں کہ وطن عزیز کے شریف حکمران اور انکی اولادیں لوہے ،دودھ ، دہی ، انڈوں اور گوشت کے کاروبار سے اور انکے عزیز واقارب کرپشن اور منی لا نڈرنگ سے بیرون ملک اپنے اثاثوں میں اضافے میں مصروف رہیں گے ، نینشنل ایکشن پلان والے مدرسوں اور لاؤڈ اسپیکروں پر پابندی لاگو کرنے میں مصروف رہیں گے۔ انصاف کے تحت پر براجمان قاضی شہ سرخیوں میں رہنے کیلئے دو بوتل شراب پر سوموٹو ایکشن لیتے رہیں گے۔ اپوزیشن والے اپنی کرپشن چھپانے کیلئے مفاہمتی پالیسی کا راگ الاپتے رہیں گے۔ دینی سیاسی جماعتیں کرپٹ حکمرانوں کی صبح حمایت اور شام کو مخالفت کرتی رہیں گی۔
وطن عزیر پاکستان کے تمام بالادست طبقے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کیلئے بہت کچھ کررہے ہیں۔ لیکن کیا بالا دست طبقے ملک کے مستقبل ، وطن کی نوجوان نسل جس کو باقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت بے راہ روی اور بیہودگی کی پستیوں میں دھکیلا جارہا ہے ، اسکے سدباب کیلئے بھی کوئی جماعت ، کوئی حکمران ، کوئی انصاف کا ترازو تھامنے والا ، کوئی میجک اسٹک والا ، کوئی دھرنے والا ، کوئی قوم کا خیر خواہ کبھی سوچیں گے اور ٹھوس اقدامات کریں گے؟
Sahibzada Ateeq
تحریر: صاحبزادہ عتیق الرحمن صدر پاکستان پریس کلب پیرس فرانس 0033603396188