تحریر : نمرہ نمی گئے دنوں کی بات ہے کہ بصرہ شہر میں ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا ہر باپ کی طرح اسکی بھی خواہش تھی کہ اسکا اکلوتا نوجوان بیٹا اعلی تعلیم حاصل کرے اور ایک اچھا انسان بنے اس نے جمع پونجی لگا کربیٹے کو اس دور کی بہترین درسگا میںداخل کروایا اور وہ وہ نوجوان لڑکا نامور علماء کے زیر سایہ تعلیم حاصل کرنے لگ گیا۔کچھ عر صے کے بعد نوجوان لڑکا تعلیم مکمل کرنے کے بعد گھر واپس لوٹا تو بوڑھے باپ کو گھر کے دروازے پہ اپنا منتظر پایا۔بوڑھا آدمی آگے بڑھا ،بیٹے کو گلے لگایا، پیار سے ماتھا چوما اور پھر یوں ہوا کہ بیٹے کی بے روح آنکھوں کے خالی پن کو دیکھ کر بوڑھا آدمی چونک گیا اوراس میں مایو سی کی ایک لہر سی دوڑگئی۔بیٹے سے سوال کیا کہ درسگاہ میں کیا کچھ پڑھاتو بیٹے نے جواب دیا کہ وہ تمام کتب جو ادارے میں پڑھائی جاتی ہیں مجھے از بر ہیں۔ بوڑھا آدمی صاحب بصیرت تھا جان گیا کہ بیٹے نے کتب وعلوم کو تو سینے میں محفوظ کر لیا لیکن روح کے حیات آفریں پیغام انسانیت سے نا آشنا رہا ۔ بوڑھاآدمی اداس لبحے میں بیٹے سے مخاطب ہوا اور کہا کہ تم نے زبان وبیاں پر تو مہارت حاصل کر لی لیکن جوعلم مجھے مقصود تھا اس سے تم بے بہرہ ہو۔
یہ سن کر نو جوان بیٹا پھر سے اپنے استاد کی طرف لوٹ گیا اور سب کچھ اسکے گوش گذار کیا،استاد نے سب کچھ سننے کے بعد چار سو بھیڑوں کا ریوڑنوجوان لڑکے کے حوالے کرتے ہوئے یہ حکم دیا کہ جائو ان بھیڑوں کو پہاڑوں اور صحرئوںمیں چرائو اور تب تک واپس نہ لوٹنا جب تک بھیڑوںکی تعداد چار سو سے بڑھ کر ایک ہزار نہ ہو جائے۔ استاد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے نوجوان بھیڑیں چرانے لگا۔ بھیڑوں کی صحبت کا اثر تھا کہ نوجوان لڑکے کے دل و روح پر لگا زنگ آہستہ آہستہ اتر نے لگا اور وہ آنکھیں جن کا خا لی پن دیکھ کر بوڑھا آدمی چونک اٹھا تھا، محبت انسانیت سے لبریز ہو کر چمک اٹھیں ، اس نوجوان لڑکے نے علم تو مدرسے سے سیکھا لیکن حلم بھیڑوں کی صحبت میں ،الفاظ و معانی تو مدرسے میں سیکھے لیکن خامشی کی زبان بھیڑوں کی صحبت میں سمجھی ، محاسن و آداب تو مدرسے میں سیکھے لیکن حسن کردار کا سبق بھیڑوں کی صحبت میں ملا، تعلیم مدرسہ نے علمی برتری کا احساس دلایا تو بھیڑوں کی صحبت نے عجز و انکساری سکھائی۔
طویل عرصہ کے بعد نوجوان لڑکا واپس لوٹا تو بوڑھا باپ اور استاد دونوں خوش ہوئے کہ آخر وہ اسباق بھی تکمیل کو پہنچے جو نامکمل رہ گئے تھے شائد یہی وجہ ہے کہ پیغمبر آخرالزماںۖ سمیت کئی پغمبران خدا بکریاں چرایا کرتے تھے ا ور یہ بکریاں چرانا بھی دراصل اس تربیت کا حصہ تھا جسکا مقصد انبیاء کو قیادت کے زریں اصول سکھانا اورمخالفین کے ساتھ بھی محبت و شفقت کا برتائوکرنے کا طریقہ وضع کرنا تھا۔گڈریے کا بکریوں کے مختلف اطراف میں دوڑنے پر ان کے پیچھے بھاگتے ہوئے انھیں قابو کرنا، انھیں ترتیب دے کر متحد کرنا بھی قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا عمل ہے۔ چو نکہ ہر پیغمبر داعی ہے اور دا عی کیلئے راواداری، صبر و برداشت، دوسروں کا احساس کرنا اور بلا امتیاز سب سے ہمدردی و شفقت کا سلوک کرنا۔
Right Path
بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراط مستقیم پر چلانا اور بہکے ہوئے نفوس کو صیح سمت عطا کرنا اور دعوت حق کی راہ میں پیش آنے والی تکا لیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا اور ان پر صبر کرنا جیسی خصوصیات کا حامل ہونا ضروری ہے شائد یہی وجہ ہے کہ انبیاء کو بکریاں چرانے کا فرض سونپا گیا۔ تاکہ وہ انسانوں کہ اس ریوڑ میں وہ لوگ جو خواہشات نفسانی کے پیچھے بھاگتے ہوئے غلط سمت میں چلے جاتے ہیں ان کی رہنمائی کرکے ان کا رخ راہ حق کیطرف موڑ سکیں، بھٹکے ہوئوں کو نفرت کی لاٹھی سے نہیں محبت و خلوص سے سدھار سکیں ،انھیں دھتکار سے نہیں، پیار سے سنوارا جائے لیکن بدقسمتی سے وارثان دین نے دعوت حق کو حسن اخلاق سے نہیں بندوق کے زور پہ پھیلانے کی ٹھان لی ، باطنی حسن کی بجائے ظاہری طور پر دینی تقا ضوںکو پورا کرنے پر زور دیا جانے لگا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دور جدید کہ اکثر علماء اسباق شریعت سے تو اچھی طرح واقف ہیں لیکن روح دین سے نابلد، وہ نفاذ شریعت کیلئے تو تن من دھن کی با زی لگانے پر تیار ہیں لیکن محبت انسان سے محروم ،ان کے ازہان تو قرآن و حدیث کی تعلیمات سے لبریز ہیںلیکن انکے کردار صبروبرداشت اور مذہبی رواداری جیسی زریں اسلامی اقدار سے خالی۔
ہم تو اس دین کے پیروکار ہیں جو غیر مسلموں کے جان ومال کے تحفظ کی بھی ضمانت دیتا ہے تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی جان لیکر جشن فتح مناتے ہیں۔ پغمبراسلام کے حسن اخلاق کا تو یہ عالم تھا کہ غیر مسلم سے ترش روی کو بھی نا پسند فرماتے ۔ایک دن ایک یہودی جس سے نبی کریمۖنے کچھ قرض لیا تھا،تقاضے کو آیا اور سختی سے مطالبہ کرنے لگا ۔حضرت عمر فاروق نے اسے سختی سے جھڑک دیا، سرکارۖ حضرت عمر فاروقسے مخاطب ہوئے اور فرمایا،عمر تمھیں لازم تھا کہ میرے ساتھ اور اسکے ساتھ اور طرح کا برتائو کر تے ، مجھے حسن ادائیگی کیلئے کہتے اور اسے حسن تقاضا سکھلاتے پھر حضورۖنے یہودی سے مخاطب ہو کر کہا کہ ابھی تو قرض واپس کرنے کی مدت میں تیں دن باقی ہیں۔
پھر حضرت عمر فاروق سے دوبارہ مخاطب ہوئے اور حکم دیا کہ اس کا قرض واپس کردو اور 20 صاع زیادہ بھی دینا کیونکہ تم اس سے سختی سے پیش آئے ۔ آپۖ نے تو فتح مکہ کے موقع پر ان لوگوں کو بھی معاف کر دیا جو آپۖ کو قتل کرنا چاہتے تھے تو اور سالوں آپکے خلاف ہتھیار اٹھاتے رہے ۔پھر یہ کون لوگ ہیں جو اسلام کے نام پر نہتے شہریوں کے خلاف ہتھیار اٹھا کر ان کا خون بہا رہے ہیں ۔شائد یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے مدارس میں پڑھائی جانیوالی تمام کتابیں تو ازبر کرلیں لیکن درس انسانیت سے محروم رہے کہ انسانیت کا سبق مدارس سے نہیں ملتا بلکہ حسن تربیت و عمل سے ممکن ہے۔ اور میں آج بھی جب کبھی ان باریش چہروں کی آنکھوں میں غور سے دیکھتی ہوں تو ان کا خالی پن دیکھ کر بصرہ کے بوڑھے آدمی کیطرح چونک سی جاتی ہوں۔