تحریر : اظہر اقبال مغل جب انسان نے زمین پر قدم رکھاتو وہ کچھ نہیں جانتا تھا نہ لباس کا پہننے کا پتہ تھا نہ کھانے پینے کا لیکن جس طرح وقت گزرا انسان نے شکار سیکھا اور شکار کر کے اپنی بھو ک مٹانے لگا اور پہننے کے لئیے جانوروں کی کھال استعمال کرنے لگااسی طرح انسان جستجو بڑھتی گئی اور انسان نے کھیتی باری شروع کر دی آگ کا استعمال سیکھ لیا اور انسان گروہوں کی شکل میں رہنے لگے اسی طرح دیہات وجود میں آئے جب انسان کو تھوڑا سا شعور آیا تو انسان نے زمین پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور اپنے جیسے انسانوں کو غلام بنانا شروع کردیا انسانوں پر حکومت شروع کر دی جو جتنا طاقت ور ہوتا اسکے پاس اتنی ہی دولت بادشاہت ہوتی غریب اور کمزور لوگوں کے حصے میں ہمیشہ سے ہی غلامی آئی ہے جس کی اصل وجہ شائد یہ ہے کہ غریب اور کمزور کو دب کر رہنے کی عادت پڑ جاتی ہے ایک درو تھا کہ بادشاہ بہت ظالم ہوتے تھے ذرا سی بات پر سر قلم کرا دیتے تھیغریبوں اور کمزوروں کو ہمیشہ دبا کر رکھتے تھے غر یبوں کو پورے حقوق نہیں دیتے تھے اللہ نے ایسے لوگوں کی اصلاح کے لیئے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر روئے زمین پر اتارے ہیں تاکہ ان کو ہدایت دے سکیں۔
اللہ کا پیغام ایسے ظالم لوگوں تک پہنچا سکیں لیکن اس طرح کے ظالم لوگ آج بھی اس دنیا میں موجود ہیں۔اگر آج کے موجودہ دور کا زمانہ جہالت کے ساتھ موازانہ کیا جائے تو کوئی خاص فرق نہیں اس دور میں بھی دولت مند غریب کو دبا کر رکھتا تھا آج بھی دبا کر رکھتا ہے بس طریقہ بدل گیا ہیآج کے حکمران غریبوں کے لیئے قانون سازی تو کرتے ہیں لیکن اس پر عمل بہت کم ہوتا ہے بلکہ دیکھاجائے تو یہ دور زمانہ جہالت سے بھی بدتر ہے بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کے گھروں پر بااثر افراد نے قبضہ جما رکھا ہے لیکن وہ بیچارہ غریب انسان چھڑا نہیں سکتا کیوں اس میں اتنی طاقت ہی نہیں کئی غریب لوگ ایسے ہیں جن کی بہن بیٹوں کی عزتوں سے سرعام کھیلا جا رہا ہے اور وہ چپ رہنے پر مجبور ہیں۔جن میں سے کچھ لوگوں نے ہمت کی کیس کیا لیکن آج لوگ آزاد گھوم رہے ہیں آج کے دور میں بھٹہ مزدروں پر تو قانون سازی کی جاتی ہے۔
لیکن ان امیر لوگوں کے ہاں جو چھوٹی چھوٹی بچیاں بچے کام کر رہے ہیں جن کو چند روپئے اور دو وقت کی روٹی دے کر ان کو قید کیا ہوا ہے ان پر سر عام تشدد کیا جاتا ہے ان سے دن رات محنت لی جاتی ہے ان کو اپنے اُترے ہوتے کپڑے اور بچا ہوا کھانا دیا جاتا ہر وہ سلوک ان کے ساتھ کیا جاتا ہے جن سے ان کی عزت مجروح ہو کیا اسی کو انسانیت کہتے ہین کہ اپنے سے کم پیسے والے کو دبا کر رکھا جائے کئی بچیاں ایسی ہین جن کی عزت کو امیر زادوں نے پاوں تلے روند دیا ہے لیکن غریب بے بس ہیں کچھ نہیں کر سکتے آج قانون امیر کا عدالت امیر کی غریب کے لیئے صرف سسکیاں ہے آہیں ہے اگر ان لوگوں کا بس چلے تو اس پر بابندی لگا دیں ان پر کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔
Poor Man
غریب انسان کہیں بھی کام کرتا ہے کسی ادرہ کسی دوکان یا کسی بھی جگہ اسے اپنا ذاتی ملازم بنا لیا جاتا ہے گھر کا ہر کام اس سے کریا جاتا ہے بار بار اس کی انا کو ٹھیس پہچانے کی کوشش کی جاتی ہے اگر وہ تھوڑی سی مذمت کرے تو اسے کوئی نہ کوئی الزام لگا کر نوکری سے نکال دیا جاتا ہے یا نکلوا دیا جاتا ہے یا اس کو کو اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ خود ہی نوکری چھوڑ دیتا ہ اگر بغور جائزہ لیں تو اصل زندگی ہی پیسے والے کی ہے اگر امیروں کا رویہ غریبوں کے ساتھ ٹھیک ہو تو نہ غریب جرم کرے نہ امیر سے نفرت کرے آج کے موجودہ دور میں امیر غریبوں سے نفرت کرتا ہے اور غریب امیروں سے نفرت کرتا ہے اگر اگر ایک سروے کیا جائے تو یہ بات کھل کرسامنے آئے گی ۔موجودہ دور جس کی لاٹھی اُسی کی بھینس کا دور ہے بقول شاعر جس کی لاٹھی اُسی کی بھینس کہہ گئے لوگ سیانے یہ اس دور ک ا کڑوا سچ ہے کوئی مانے یا نہ مانے
کمزور اور غریب انسان تو ہے جگہ ہی ذلیل خوار ہو رہا ہے اس کو ہر جگہ ہی دبایا جاتا بہت سے نو جوان ہیں جو کہ ڈگڑیاں ہاتھوں میں لیئے گھوم رہے ہیں ان کے پاس رشوت دینے کے پیسے نہیں ہیں مجبورا اپنی قابلیت سے کم درجے کی نوکری کرنے پر مجبور ہیں موجودہ دور میں جو کالا بازار گرم ہے اس کو ٹھنڈا کرنا بہت مشکل ہیں کیونکہ اب کوئی غلط کام ہمیں لگتا ہی نہیں ہے جس جگہ انصاف نہ ہو وہاں حالات تبدیل نہیں ہوتے بلکہ اللہ کی طرف سے عذاب ہی نازل ہوتا ہے۔ آج کے موجودہ دور میں دیکھیں تو کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ مہذب قومیں اچھی سوچ سے بنتی ہیں ظلم زیادتی سے نہیں جب تک جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والا قانون تبدیل نہیں ہو گا کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی تبدیلی تب ہی آئے گی جب قانون کی پاسداری ہو گی امیر غریبی کا فرق بہت بڑھ جائے گا اور انصاف صرف امیر کو ہی ملا کرے گا۔
غریب انصاف سے محروم ہوجائے گا آج امیر اور زیادہ امیر ہو رہا ہے اور غریب کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں بے شمار قیدی جیلوں میں اس لیئے سزا اکاٹ رہے ہیں کہ ان کے پاس جرمانہ دینے کے پیسے نہیں اور آج بھی وہ کال کوٹھریوں میں سر رہے ہیں غریب ہونا کوئی گناہ نہیں ہے لیکن آج گریب کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اسی لیئے ہر بندہ امیر ہونے کے خواب دیکھتا ہے اور ہر جائز ناجائز طریقہ سے دولت حاصل کرنے کی دُھن اس پر سوار ہوتی ہے کیوں کہ اس معاشرہ نے اسے سوائے نفرت محرومی کے اسے کچھ نہیں دیا ہوتا پختہ دھن کے مالک تو حالات سے مقابلہ کرتے ہیں لیکن بعض نا پختہ ذہن رکھنے والے دولت کمانے کے لیئے غلط ذرائع کا استعمال کرتے ہین جس سے معاشرہ میں اس قدر بگاڑ پیدا ہوتا ہے کہ اس پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے یہ سب امیری غریبی کے فرق کا ہی تحفہ ہے آج اگر امیر غریبی اور جس کی لاٹھی اسی کی بھنس والا قانوں ختم کر دیا جائے تو یہ امیر غریب مین امن بھائی چارہ قائم ہوگا۔