تحریر : عقیل خان پاکستان پچھلے کئی سالوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے ۔ اس جنگ میں ہم نے اپنوں کا بہت خون بہایا ہے۔ وقت اپنے رنگ بدلتا رہا مگر ہم دہشت گردوں کو ہرا نہیں سکے۔ کئی حکومتیں آئیں اور اپنی مدت پوری کرکے چلی گئیں مگر دہشت گردوں نے ہمارے ملک کا پیچھا نہیں چھوڑا دہشت گردی ایک طرف سے ہو تو اس کا کچھ نہ کچھ کیا جاسکتا ہے مگر جب دہشت گردی کئی اطراف سے ہو توپھر اس کے لیے روکنا ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہوجاتا ہے۔ایک اور بات جب ان دہشت گردوںکے اپنے ہی آلہ کار بن جائیں تو پھر اس کو پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہمارے ملک کا ازلی دشمن جو ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بھارت دنیا کے کسی بھی حصے میں پاکستان آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتا مگر جب تک میرا رب العزت نہ چاہیے تو یہ کیڑے مکوڑے پاکستان کو کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ بھارت کبھی نہیں چاہتا کہ پاکستان ایک پُرامن ملک بن سکے کیونکہ ہندو مسلمان کا کبھی دوست نہیں بن سکتا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی اس بھارت کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ جہاں ہم بھارت سے پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں وہاں بنگلہ دیش اور افغانستان پاکستان کے بجائے بھارت کو ترجیح دے رہے ہیں جہاں سے بھارت کو پاکستان کے خلاف سازش کرنے کا ٹھکانہ مل جاتا ہے۔
میں یہ تو نہیں کہتا کہ پچھلے کئی سالوں سے دہشت گردی کے خلاف حکومتوں نے اقدام نہیں کیے مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے آنے کے بعد دہشت گردوں کو لگا م ڈل گئی تھی۔ انہوں نے اپنے تین سالوں میں ملک کے لیے جو کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ میں ان اینکر ، لکھاری یا سیاستدان کے خیالوں سے متفق نہیں ہوسکتا جو راحیل شریف کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ان کی اپنی سوچ ہے مگر عوامی رائے سب کے سامنے ہے ۔ راحیل شریف ہی تھا جس نے کراچی سے لیکر خیبر تک دہشت گردوں کا نہ صرف پیچھا کیا بلکہ ان کو کیفرکردار تک پہنچایا۔
بقول حکمرانوں کے کہ دہشت گرد بھاگ رہے ہیں اس لیے وہ جاتے جاتے ہاتھ پیر مارر ہے ہیں۔ اللہ کرے یہ حقیقت ہو مگر جہاں جہاں یہ دھماکے ہورہے ہیں وہ پر ماں کے لال، بہنوں کے بھائی، بیویوں کے سہاگ اور بچوں کے سرسے سایہ اٹھ رہا ہوتا ہے۔ جس گھر کاچراغ گل ہوجائے تو اس گھر کی تو روشنی ختم ہوجاتی ہے۔یہ بھی سنا ہے کہ حکومت کو پہلے ہی اطلاع ہوگئی تھی کہ لاہور میں دہشت گردی کا خطرہ ہے تو پھر اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ میں نے عموماً لاہور میں آتے جاتے دیکھا ہے کہ روڈ پر” ناکے” تو ضرور لگے ہوتے ہیں مگر ڈیوٹی پر موجود صاحبان گپوں یا سگریٹ نوشی میں مشغول ہوتے ہیں۔
Lahore Blast
پیر کے روز شام کے وقت پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں مال روڈ پرایک دھماکا ہوا جس میں دو سینیئر پولیس افسران سمیت کئی افراد ہلاک اور زخمی ہو ئے۔اس دھماکے میں ہلاک ہونے والے پولیس افسران میں لاہور ٹریفک پولیس کے ‘ڈی آئی جی’ کیپٹن (ریٹائرڈ) احمد مبین اور سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس زاہد گوندل شامل ہیں۔جب یہ دھماکا ہوا اس وقت مال روڈ پر دوا ساز کمپنیوں سے تعلق رکھنے والے ‘فارما مینوفیکچررز اور کیمسٹس’ کا احتجاج جاری تھا، یہ احتجاج ‘ڈرگ ایکٹ’ کے خلاف کیا جا رہا تھا۔اعلیٰ پولیس عہدیدار احتجاج میں شامل افراد سے بات چیت کے لیے وہاں موجود تھے تاکہ ٹریفک کے نظام کو بحال کیا جا سکے۔اس دوران ایک دھماکا جس میں ان دونوں افسران سمیت کئی لوگوں نے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔ بقول حکام اور انتظامیہ کہ یہ دھماکا خود کش تھا۔
انتظامیہ کے مطابق حملہ آور پیدل تھا اور چونکہ وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد مجمع کی شکل کھڑی تھی اس لئے حملہ آور آسانی سے مجمع میں داخل ہوگیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جس جگہ لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہو وہاں کسی ایک شخص کو روکنا مشکل ہوتا ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حملہ آور کی شناخت ہوگئی ہے۔ سی سی فوٹیج میں جو دیکھا گیا اس میں دوافراد دھماکے والی جگہ طرف آتے ہیں مگر ایک جواس کا سہولت کار تھا اس کو چھوڑ کر چلاجاتا ہے اور وہ شخص احمد مبین ڈی آئی جی کے قریب پہنچتا ہے تو دھماکا ہوجاتا ہے۔ کہنے والے مختلف آرا ء پیش کررہے ہیں کوئی کہتا ہے کہ یہ حملہ میاں برادران پر ہونا تھا تو کوئی کہہ رہا ہے یہ حملہ مظاہرین پر ہوا ہے جبکہ اس ویڈیو کے مطابق تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس کاٹارگٹ تو کوئی اور تھا۔ ٹارگٹ کوئی بھی تھا مگر قتل تو انسانیت کا تھا۔ شہید تو ہمارے اپنے ہوئے ہیں۔ گودیں تو ماوؤں کی اجڑی ہیں۔
دکھ والی بات تو یہ ہے کہ جس وقت حملہ ہوا تھا اس ابتدائی وقت میں میڈیا نے پولیس کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا اور اپنے اپنے انداز میں پولیس کو برا بھلاکہنا شروع کردیا مگر جب اطلاعات آنا شروع ہوئیں اور پتا چلا کہ پولیس افسران شہید ہوئے ہیں تو پھر وہی میڈیا اپنا منہ لیکر بیٹھ گئی۔ خدارا میڈیا والوں کچھ تو کہنے سے پہلے سوچ لیا کرو ؟کیا پولیس والے انسان نہیں ہوتے ؟ کیا ان کی زندگی، زندگی نہیں؟۔