تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا ہر انسان خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، عورت ہو یا مرد، بوڑھا ہو جوان، زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق ہو اچھی اور معیاری صحت کا طلب گار بھی ہوتا ہے اور ہر شہری کا یہ بنیادی حق بھی ہے۔ ملک پاکستان کی بدقسمتی اسی دن شروع ہو گئی تھی جب ہمارے قائد محمد علی جناح پاکستان کو تنہا چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ عام روزِ مرہ کھانے پینے کی اشیاء کا معیار وہ نہیں جو اشرف المخلوقات کا ہونا چاہیے۔ بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ تعلیم کی کمی اور جو پڑھے لکھے ہیں ان میں شعور اور تربیت کی کمی نمایاں ہیں حکومت پنجاب نے جعلی اور غیر معیاری ادویات کے خاتمہ کے لئے قانوں سازی کا ایسا کام کیا ہے کہ اس پر داد ہی دی جا سکتی تھی اگر اس میں شعبہ طب سے وابسطہ محب وطن شہریوں کو چشامل کیا جا تا۔جیسا کہ آج کل میڈیا ( الیکٹرانک و پرنٹ) کی زینت بنے والی خبروں کے مطابق ! ڈرگ ایکٹ 1976 ایک وفاقی قانون ہے جس کا دائرہ کار سارا پاکستان ہے اور اس ایکٹ میں وفاقی پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ترامیم نہیں کی جاسکتیں۔ پاکستان میں ادویہ سازی زیادہ تر برٹش فارما کوپیا اور امریکن فارما کوپیا کے مسلمہ قواعد و ضوابط کے تحت کی جاتی ہے۔
متذکرہ دونوں فارماکوپیا اور دنیا کے دیگر فارما کوپیا میں ادویہ سازی اوران کے معیار کو جانچنے کیلیے قواعد و ضوابط موجود ہیں اور ان کو معیار بنا کر ہی تمام مراحل طے کیئے جاتے ہیں اور دوا کے معیاری اور غیر معیاری یا جعلی ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے پاکستان میں اس وقت ادویہ سازی کے تقریبا 600 سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں جن میں 250 کے قریب یونٹ پنجاب میںموجود ہیں صرف پنجاب میں کیمسٹوں کی تعداد 48000 سے زائد ہے عورتیںبھی یونانی، ہومیو پیتھک، میڈیکل سٹوروں سے وابستہ خاندانوں کی تعداد تقریبا 1لاکھ 50 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ دیگر صوبوں اور وفاق کے برعکس پنجاب حکومت نے ڈرگ ایکٹ 1976 میں تبدیلیاں کرکے ڈرگ ایکٹ 2017 منظور کیا اور اسے صوبہ بھرمیں نافذکرنے کے احکامات صادر فرمائے۔
ڈرگ ایکٹ2017 کے تحت جعلی ادویات کے خاتمے کی آڑ میں سزائوں اور جرمانوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ کیا گیا۔ کم سے کم سزا 2 سال اور زیادہ سے زیادہ 10 سال جبکہ جرمانہ کم از کم 2 لاکھ اور زیادہ سے زیادہ 7کروڑ روپے کر دیاگیا۔ اور لائسنس یافتہ میڈیکل سٹوروں اور جعلی ادویات بنانے والوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا گیا۔ جبکہ چیکنگ ٹیموں سے عدم تعاون، غیر معیار ی دوا کی برآمدگی، کوالیفائیڈ پرسن کی غیر موجودگی، مطلوبہ ٹمپریچر نہ ہونے پر کیمسٹ کے خلاف ناقابل ضمانت FIRاور لائسنس کی معطلی کی سزائیںبھی رکھی گئیں۔ اور بغیر صفائی کا موقع دیے ان تمام احکامات پر عمل درآمد یقینی بنانے کے فیصلے بھی صادر فرما دیئے گئے۔ شیڈول جی کا اطلاق کر کے میڈیکل سٹور کو صرف چند دوائوں کی فروخت تک محدود کر دیا گیا۔ میڈیکل سٹور پر ہول سیل کا خاتمہ، ڈسپنسر و سیلف کوالیفائیڈ لائسنس کا خاتمہ، نئے لائسنس کے اجراء پر پابندی، نام نہاد ٹاسک فورس کا قیام جیسے اقدامات شامل کیئے گئے۔
ملک بھر کی فارما انڈسٹری اور میڈیکل سٹورز کی تمام تنظیموںنے اس ڈرگ ایکٹ کی ظالمانہ ترامیم کو کالا قانون قراردیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ۔ پنجاب کیمسٹ کونسل اور پنجاب کیمسٹ ایسوسی ایشن و دیگر تنظیموںکو موقف ہے کہ پنجاب کابینہ کی طرف سے منظورشدہ ترمیمی بل پر سٹک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اور ان سے مشور ہ تک کرنا گوارا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے حکمران دیگر کئی کاروباروں کی طرح فارما انڈسٹری کو بھی اپنے کاروبار کا حصہ بنانا چاہتے ہیں اور ترکی کی ایک کمپنی کو فارما انڈسٹری ٹھیکے پر دے کر صوبہ بھر میں اس کی شاخیں قائم کرنے کے درپے ہیں۔
Fake Medicines
جعلی اور غیر معیاری ادویات کے نام پر ان کا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے۔ ڈرگ ایکٹ 1976 کے نفاذ کے بعد سے اب تک ملک بھر سے ادویات کے نمونے لیبارٹیریوں کو بجھوائے جاتے رہے۔ جس میں کوئی دوا جعلی ثابت نہیں ہوئی حکومت اعدادوشمار کو مدنظر رکھے اور بتائے کہ اب تک لیبارٹریوں نے کتنی جعلی ادویات کی رپورٹ دی ہے۔ پاکستان کیمسٹ کونسل کے زیر اہتمام نہ صرف پنجاب بلکہ ملک کے دیگر حصوںمیںبھی شٹر ڈائون ہڑتالوں، شہر شہر احتجاجی ریلیوںکا سلسلہ جاری ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا۔ جب تک پنجاب حکومت ان غیر قانونی اقدامات کو واپس نہیں لے لیتی۔ مریضوں کو درپیش مشکلات اور انسانی جانوںکے ضیاع کی تمام تر ذمہ داری حکومت پنجاب پر عائد ہوتی ہے جس کے ظالمانہ اقدامات کے نتیجے میں کیمسٹ برادری شٹر ڈائون جیسے انتہائی اقدامات پر مجبور ہے۔ کیونکہ ان حالات میں ہمارا کاروبار جاری رکھنا ممکن نہیں 18 ویں ترمیم صوبوں کو قانون سازی کا حق دیتی ہے۔مگر ڈرگ ایکٹ تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتیں جعلی ادویات کی موجودگی کسی بھی صورت قبول نہیں ان عناصر کی سرکوبی نہایت ضروری ہے جو اس گھنائونے فعل میں ملوث ہیں۔
اس سلسلہ میں کیمسٹ برادری ہمیشہ تعاون کرتی آئی ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ لیکن مجوزہ ترامیم کا سارا نزلہ لائسنسی اداروں پر گرایا جائے ایساکسی ملک یا ادارے میں نہیں ہوتا کہ انصاف کے تقاضے پورے کیئے بغیر اور صفائی کا موقع دیئے بغیر سزائوں اور جرمانوں پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے۔یہاں یہ امر قابل زکر ہے کہ ہومیوپیتھک طریقہ علاج ایک سائنسی اور بے ضرر ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہومیوپیتھک ادویات بنانے والے اداروں نے حکومت کو فارم 6 اور فارم 7 کے لئے درخواستیں بمع فیس جمع کروائی ہوئی ہیں اور یہ تعداد کم از کم 600کے قریب ہیں جبکہ ابھی تک درجن بھر فامیسیوں کو اجازت دی گئی ہے۔
کیا اس سے حکومت کی نیت ظاہر نہیں ہو رہی؟ حالانکہ ایلوپیتھک ڈرگ انسپکٹرز ہومیوپیتھی کو سمجھ ہی نہیں سکتے ، اگر حکومت ہومیوپیتھی کا معیار بلند کرنا چاہتی ہے، یا حقیقت میں معیاری ہومیوپیتھک ادویاتپاکستان کے باسیوں کو مہیا کرنا چاہتی ہے تو یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کو ڈرگ انسپکٹرزتعینات کرے حکومت کے اس ڈرگ ایکٹ2017 کی تیاری اور لاگو ایسے ہی ہے جیسا کبھی مرحوم حاجی سلطان راہی کی پنجابی فلموں میں ہوتا تھا کہ ایک آدمی اُٹھتا ہے طاقت کے بل بوتے پر لوٹ کھسوٹ کر کے غریبوں اور مسکینوں میں مال راشن تقسیم کرتا ہے اور ان کی دعائیں لیتا ہے ایسا ہی پنجاب حکومت کر رہی ہے کہ جعلی اور غیر معیاری ادویات کے خاتمہ کے نام پر چھوٹے چھوٹے ادویات کے کاروبار کرنے والوں اور ہومیوپیتھی و حکمت کو ختم کرنے کے لئے ڈرگ ایکٹ2017 کا نفازکر کے خاتمہ کرنا چاہتی ہے۔حالانکہ ہزاروں نہیں لاکھوں گھروں میں صفِ ماتم بچھے گئی، اور پھر کیا ملک میں امن ہوگا؟ اگر اس متناضہ ڈرگ ایکٹ کو زبردستی لاگو کیا گیا، تو بے روزگاری ، ڈاکے ، چوری ، قتل و غارت اور دہشت گردی جیسے عوامل کو روکنا بہت مشکل ہو جائے گا۔