تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل گزشتہ پانچ دنوں میں دہشتگردی کے نو واقعات نے پورے پاکستان کو حیران و پریشان کر دیا ہے ہر طرف سوگواری ہے۔افسوس کی لہر دوڑ رہی ہے۔گزشتہ دنوں لاہور ،کوئٹہ ،پشاور ، مہمندایجنسی، ڈیرہ اسماعیل، آواران، اور سیہون شریف میں لال شہباز قلندر کے مزار پر دہشتگردی کے واقعات پیش آئے۔جو انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہیں۔دہشتگردی کے ان واقعات میں ایک سو تیس سے زائد شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ان واقعات نے جہاں پورے پاکستان کو حیران و پریشان کیا ہے وہیں ہمارے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی اداروں پر بھی سوالیہ نشان اٹھایا ہے۔آخر ہمارے سیکورٹی و انٹیلی جنس ادارے اتنے کمزور اور لاعلم کیوں؟ اگر علم تھا تو کوئی عملدرآمد اور روک تھام کیوں نہیں؟ماضی میں بھی متعدد بار دہشتگردی کے واقعات ہونے تک ہمارے حکمران اور ادارے سوئے رہے۔جب تک کوئی بڑی دہشتگردی نہ ہو جائے کوئی حرکت سامنے نہیں آتی ۔آخر کیوں؟آخر ہم دشمنوں کے مقاصد جاننے کے باوجود بھی ہر وقت دہشتگردی سے نمٹنے کے لئے چوکنا کیوں نہیں ہوتے۔؟اگر چوکنا ہیں تو یہ واقعات کیسے اور کیوں؟یہ ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب کوئی بھی نہیں دیتا۔جن کے سگے جان سے بھی پیارے دہشتگردی کا نشانہ بنے ہیں انکی دلی کیفیت سے ہم ہر گز واقف نہیں۔
معصوم چہرے غم زدہ آنکھیں اور ساکت زبان ہمارے اداروں سے حکمرانوں سے سوال کر رہی ہیں کہ آخر ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے ہمار قصور کیا ہے؟کیوں ہمارے باغوں کی کلیوں پھولوں اور پھلوں کو چھلنی کیا جاتا ہے؟آخر کیوں؟ان سوالوں کے جواب بھی کسی کے پاس نہیں۔قارئین گزشتہ چند عرصے کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ایک چیز واضح ہو جاتی ہے کہ ملک دشمن سی پیک کی ناکامی کے لئے مسلسل متعدد کوششوں میں مصروف ہیں۔دشمن ہماری نظریں کشمیر اور سی پیک سے ہٹا کر افراتفری پھیلانا چاہتا ہے۔کبھی آزاد کشمیر کے بارڈر پر الجھایا جاتا ہے کبھی افغانستان کے راستہ الجھایا جاتا ہے۔
کبھی سرجیکل سٹرائیک کے جھوٹے دعوے کئے جاتے ہیں۔کبھی ہمارے جاسوس کبوتر پکڑے جاتے ہیں۔کبھی ہمیں تنہا کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔دشمن مسلسل افراتفری پھیلانے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔میں یہ بات پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ موجودہ دہشتگردی کے واقعات بھی اسی کڑی سے جا ملتے ہیں۔گزشتہ دنوں پاکستان اور دوسرے غیر ملکی ممالک کی مشترکہ بحری مشقیں اور پی ایس ایل جس میں غیر ملکی کھلاڑی بھی شامل ہیں جاری تھے۔دہشتگردی کے واقعات عین وقت اس بات کا ثبوت ہیں کہ دشمن پاکستان کو دنیا کے سامنے غیر محفوظ اور دہشتگرد ملک قرار دینا چاہتا ہے۔سی پیک جو کہ بہت سے ممالک کے لئے بڑی معاشی ترقی کی اہمیت کا حامل ہے۔جسکی بدولت دنیا اپنی نظریں پاکستان پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔ایسے میں دشمن کا جھلن کے باعث کڑھ جانا اور اپنی کم ہوتی اہمیت سے تنگ آکر پاکستان میں سی پیک کی ناکامی کے لئے جتن کرنا ہی اصل وجہ ہے۔
Terrorism
دشمن نے دہشتگردی کا یہ وقت اس لئے چنا کیوں کہ ہمہ وقت بحری مشقوں اور پی ایس ایل میں موجود فوجیوں اور کھلاڑیوں تک اس کی گونج پہنچے اور غیر محفوظ پاکستان کا تاثر پہنچے۔فوجی اور کھلاڑی بیرون ملک دونوں ہی ملکی سفیر سا درجہ رکھتے ہیں۔افسوس کہادارے دشمن کی چالاکیوں سے علم رکھتے ہوئے بھی چوکنا نہیں رہے۔ہمارے ادارے اور حکمران اپنے کاموں میں مگن تھے۔کوئی حکومت گرا رہا تھا کوئی حکومت بچا رہا تھا۔پاک فوج کی توجہ بھارت بارڈر پر اٹکائی گئی تھی۔افسوس کہ دشمن پھر اپنی چالاکیوں میں کامیاب رہا۔یہ دشمن وہی انتہا پسند بھارت ہے جسکا اپنا گھر بکھرنے کے درپے ہے اور وہ دوسروں پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے۔بھارت پاکستان کو تنہا کرنا چاہتا ہے اور بیک وقت پاکستان کو کئی الجھنوں میں الجھائے ہوئے ہے۔جن میں افغانستان بارڈر اور دہشتگردی سرفہرست ہیں۔
افغانستان کے ساتھ برے تعلقات پاکستان کی ماضی میں ناکام پالیسیوں کی بدولت ہیں۔پاکستان کا امن اتنی دیر تک ممکن نہیں جب تک افغانستان پاکستان کے ساتھ مخلص اور پر امن نہ ہوجائے۔ متعدد بار لکھ چکا ہوں کہ اپنی اندرونی معاملات کو فوری نمٹا کر اپنا اندرون مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔دہشتگردی کے واقعات ہمارے اداروں پر سوالیہ نشان ہیں۔ہمارے اداروں کو ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے نہ کہ افراتفری کے عالم میں بے گناہوں کو پکڑ کر مزید بدامنی پھیلانے کی۔ہمیں قوم میں مثبت سوچ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
موجودہ صورتحال میں پاکستان کو ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے۔ثابت قدمی کے ساتھ ہمارا اندرون مضبوط ہوجائے تو دشمن خود ہی بکھر جائیں گے اور پاکستان سی پیک کی تکمیل سے ایک بڑا اقتصادی و معاشی ملک بن کر ابھرے گا۔دہشتگردی کے واقعات دشمن کے آخرے ہتھکنڈے ہیں پاکستان کو دشمن کی کاروائیوں کا واضح جواب دینے کے ساتھ مثبت سوچ ثابت قدمی اور نئی واضح خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔تاکہ ایک نئے نظریے کے ساتھ پاکستان موجودہ چیلنجز کا سامنہ کرتے ہوئے سی پیک کی پایہ تکمیل تک پہنچ جائے۔