مولانا دلفراز معاویہ شہید اور ایک یادگار ملاقات

Maulana Dilfraz Muawiya

Maulana Dilfraz Muawiya

تحریر : جنید رضا
زندگی میں بہت سے لوگ اور بہت سے مواقع ایسے آتے ہیں کہ جنکے گزر جانے یا بچھڑ جانے کے بعد فقد انکی یادیں ہی باقی رھ جاتی ہے اور انسان ان یادوں کوہی انکی جدائی کا غم دور کرنے کا سبب بنالیتا ہے۔ایسے لوگوں کی فہرست میں بااخلاق شخصیت مولانا دلفراز معاویہ کا نام جھلکتا ہوا اور ایسے مواقع میں مولانا دلفراز معاویہ سے آخری ملاقات کا منظر اپنی کشمکش دکھاتا ہوا نظر آتا ہے۔

مولانا دلفراز معاویہ شہید ایک خوبصورت اور خو ب سیرت شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ اصابت رائے،عزم وہمت جرت وبے باکی،فکری اعتدال اور احقاق حق وابطال باطل سے باامتیاز تھے،ذاتی صفات کے ساتھ ساتھ جماعتی کاز کو بھی انتہائی احسن اور لگن کے ساتھ انجام پزیر کرتے تھے،بچپن ہی سے ایرانی انقلاب میں رکاوٹ اور حضرات صحابہ رضی اﷲتعالی عنھم اجمعین کی ناموس کا دفاع کرنے والی تنظیم(اھلسنت والجماعت) سے وابستہ تھے اور اپنی تمام تر کوششیں اور صلاحیتں بطرز قائدین اپنے کاز پرنچاور کرتے تھے۔

تعلیمی لحاظ سے آپ حافظ قرآن اور عالم با عمل تھے کراچی کی مشہور ومعرف دینی درسگاہ سے در نظامی کی تکمیل فرماکر مذہبی اسکالر کانام اخذ کیا تھا،امر بلمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ پر احسن انداز سے عمل پیرا ہونے کے لئے تنظیمی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ جا معہ مسجد عائشہ (سائٹ ٹائون) میںخطاب جمعہ کی ذمہ داریادا کرتے تھے۔

احقر کی پہلی اورآخری ملاقات مسجدہذا میں ہوئی، پس فرق اتنا کہ پہلی ملاقات کے وقت احقر مشن جھنگوی شہید سے صحیح طور پر واقف نہ تھا میڈیا او رسیاسی عوام کے ذہنوں میںموجود مشن جھنگوی بعین میرے ذہن میں بھی تھا مگر رفتا رفتا اسکا عکس اور حقیقت سے واقف ہوتا چلاگیا، احقر ہر جمعہ مولانا دالفراز معاویہ شہید کی اقتداء میں ادا کرتا اور بعد نماز کافی دیر تک مولاناصاحب سے مشغول گپ شپ ہوتا ،ملاقات کی کژت مولانا صاحب کی ذمداریوں سے واقف کرتی چلے گئی۔

Maulana Dilfraz Muawiya

Maulana Dilfraz Muawiya

مولانادلفراز معاویہ علامہ علی شیر حیدری شہیدیونٹ کے نشرواشاعت کی ذمہ داری پرفائز تھے اور ساتھ ساتھ بینرز و پینا فلیکس آپ کی دن رات کی کوشش وکاوش سے کراچی کی دیواروں پر جھلکتیں نظر آتے تھے، اسکے علاوہ اسٹیج سکیٹری کی صفت میںتو آپ لاثانی تھے کراچی کا ہر اسٹیج آپکی بارونق آواز سے دفاع صحابہ کی دعوت سخن دیتا ہوا نظر آتا تھا زندگی کی بہاریں اس طرح اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی بلآخر22 فروری کا وہ دن بھی آیا جوبہت سے چہروں پر خوشی کوغم میں تبدیل اور دنیاوی ملقات کوسمیٹ کر محبوب اللہ کو الی اللہ لیجانے سبب بنا ج

ی ہاں اس دن بھی مولانادلفراز معاویہ نے اپنی ذمداری کے مطابق جامعہ مسجد عائشہ میں نماز جمعہ ادافرمائی اوربعد نماز ایک گھنٹہ تک احقر کی مولاناصاحب سے ملاقات رہی ۔ ملاقات کے اختتام پر مولانا صاحب نے فرمایا آج طبیعت کچھ ناسازی کااظہار کررہی ہے جسم میں کچھ بے چینی سی محسوس ہورہی ہے احقر نے آپکو ایک سیرب کانام بتایااور3:15 پر مسجدسے ہم نکلے مولانا صاحب مسجد کے ساتھ واقعk.e.s.c کے دفتر میں دس منٹ رکے اور میں روانہ ہو چکا تھا اور پھر فلک نے وہ منظر دیکھا،3:30 پرمسجد کے قریب گھاٹ لگائے بیٹھے دشمنان اسلام و پاکستان نے مسجدکے چندفاصلوں پر ہی مولاناصاحب کو گولیوں سے چھلنی چھلنی کر اور ایک عظیم ناڈر مجاہد, دفاع ناموس صحابہ کے چھکتے مہکتے پھول کو ٹہنی سے جدا کر کے جماعت دفاع صحابہ کے باغ کو ویراں کر گئے۔

مولانادلفراز معاویہ کی جدائی کاغم آج بھی اتنا تازہ ہے جتنا آج سے چار سال قبل انکی شہادت پر تھا مگر دل انکی کامیاب زندگی اور مبارک موت پر مسکرادیتا ہے۔اللہ رب العزت سے دعا گوں ہوں کہ اﷲتعالی مولانادلفراز معاویہ سمیت تمام شہیدوں کے درجات بلند فرمائے اور اشاعت دین محمدۖ کے لئے اپنی جان مال اور صلاحیتوں کو نچھاور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین

Junaid Raza

Junaid Raza

تحریر : جنید رضا
junaid53156@gmail.com