تحریر : شیخ خالد ذاہد موت کا کوئی بھروسہ نہیں، مرنے کیلئے کسی مذہب کی بھی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی خاص خطے کے لوگ موت سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ہم پیدا ہوتے ہی موت کی جانب پیش قدمی شروع کردیتے ہیں۔ یقیناً اگر موت کا تصور یا موت نا ہوتی تو زندگی کا کوئی مزہ نہیں ہوتا۔ موت رکھنے کا مقصد ہی یہی ہوگا کہ قدرت کی نعمتوں کا احترام کرو اور انکا غلط استعمال نا کرو۔ موت ایک انتہائی کڑوا سچ اور اٹل حقیقت ہے۔ موت کے لاتعداد بھانے ہیں، یقیناً دنیا کے تمام مذاہب اس بات پر متفق ہونگے کے “موت کا ایک دن متعین ہے” اور اگر نہیں بھی ہیں تو ایسا ہی ہے۔ دنیا میں ایسے بھی خطے ہیں جہاں انسان کی عمریں اوسط عمر سے زیادہ ہیں مگر اس کا مطلب یہ قطعی نہیں لیا جاسکتا ہے کہ وہاں تک موت کی رسائی نہیں ہے۔ اسلام کی روح سے یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ “جو پیدا ہوا ہے اسے مرنا پڑے گا” کب، کہاں اور کیسے یہ تو کاتبِ تقدیر کی صوابدید پر منحصر ہے۔ موت خودکش حملہ آور کو بھی آنی ہے اور اسے بھی جو ہزاروں افراد کے حفاظتی اور آہنی حصار میں ہے۔ شائد دنیا میں کسی بھی ذی روح کے لئے موت سے بڑھ کر اور کوئی خوف نہیں ہو سکتا۔
یہ بات کچھ کچھ سمجھ آرہی ہے کہ موت کے خوف میں مبتلا لوگ دوسرے لوگوں کو موت کی گھاٹ اتارنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ انسان کی سوچ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کا حصول جب ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ جب بٹوارے میں کم لوگ ہوں یا پھر کوئی اور ہو ہی نہیں، ہم یہ بھی سوچنا بھول جاتے ہیں کہ جیسا ہم سوچ رہے ہیں جس طرح ہمیں شیطانی سوچوں نے گھیرا ہوا ہے بلکل اسی طرح کوئی دوسرا بھی سوچ سکتا ہے اور اس سے بڑھ کر سوچ لیتا ہے۔ بزرگوں سے یہ کہتے سنا کہ “قدرت جب کسی کی بربادی کا فیصلہ کرلیتی ہے تو سب سے پہلے اسکی عقل پر پردے ڈال دیتی ہے” ۔ عقل پر پردے ڈالنے سے مراد کہ وہ سیدھا کام بھی کرے گا تو وہ الٹا ہوتا چلا جائے گا۔ یہ ایک غور طلب بات ہے اور اسکی وضاحتیں ہمارے اردگرد ہونے والے واقعات پوشیدہ ہیں۔
وہ بھی حاکم تھے جو اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ “انکی حکومت میں کوئی جانور بھی بھوکا مرجائے گا تو اس کا جواب روزِ محشر دینا پڑے گا” آپ کے عدل کی ایک انتہائی اعلی ترین مثال یہ ہے کہ جنگل میں کسی چرواہے کی بکری شیر نے کھالی جو کہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا وہ چرواہا مدینہ پہنچا اور استفسار کیا کہ کیا خلیفہ وقت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نہیں رہے تو معلوم ہوا کہ آپ کا وصال ہوگیا ہے، کیا یقین تھا۔ یہ مسلمان حکمرانوں کیلئے اعلی ترین مثال ہے۔ آج دنیا کہ ترقی یافتہ ممالک میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے مروجہ قوانین نافذ ہیں اور ان ممالک کے معاشرے دنیا میں امن و ترقی کی اعلی میعار قائم کئے ہوئے ہیں۔ یہاں بندے پر بندہ بھوک افلاس، علاج کی سہولیات نا ہونے کی وجہ سے، لاقانونیت کی وجہ سے لقمہ اجل بنتے جا رہے ہیں مگر حاکمِ وقت نرم گداز اور پر تعیش شبستانوں میں خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ہمارے وطنِ عزیز میں اسلامی نظام رائج ہے یہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے مگر مجھے یہ لکھتے ہوئے “شرم” محسوس ہورہی ہے اور سر جھکے جا رہا ہے کہ اس ملک میں عوام جو دھماکوں کی ذد میں آکے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہی ہے مگر ہمارے حکمران آج بھی وی آئی پی پروٹوکول میں گھوم رہے ہیں۔ عوام کا حجوم (جو ٹریفک رکنے کی صورت میں لگتا ہے) پھر کسی دھماکہ کا انتظار کرتی نظر آتی ہے۔ ان حفاظتی حصار کی حد تو دیکھیں۔
ایک طرف ساری ٹریفک معطل دوسری طرف شہر کی آدھی سے زیادہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نفری انکی حفاظت پر معمور اور ان کی گاڑیاں ہر طرح کے نقصان سے محفوظ رہنے والی ہوتی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ انکی زندگیوں کی اہمیت اتنی ہے اور عام آدمی کی زندگی کسی سرکاری ہسپتال کے کوریڈور میں پڑی دم توڑدیتی ہے اور کوئی اسکے ورثہ کے آنسو پونچھنے والا نہیں ہوتا۔ عوام کو بھی بہت اچھی طرح علم ہے کہ ہمارے حکمران کس طرح کہ لوگ ہیں مگر پھر بھی۔ دوسری طرف عوام کی نظر میں سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والے ادارے جو کہ قانون کی بالادستی کو یقینی بناتے ہیں خود اپنے گرد آہنی و ناقابلِ تسخیر دیواریں بناتے نظر آتے ہیں۔ جن کا اوالین کام عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے اقدامات کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے منصف نامعلوم خوف کی حالت سے دوچار کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ہماری عدالتوں نے کبھی کوئی ایسا فیصلہ صادر کیا ہو جسے بعد میں کلعدم نا ٹھرایا گیا ہو۔
ہم لوگ خوف ذدہ ہیں ہم سے خوف کون دور کرے گا۔ موت انکو بھی آجائے گی جو نا قابلِ تسخیر قلعوں میں رہتے ہیں اور انکو بھی جو بغیر چھت اور دیوار کے رہتے ہیں۔ جب ہم سب کو موت کا مزہ چکھنا ہی ہے تو پھر کیوں موت سے اتنے خوفزدہ رہتے ہیں۔ کوئی ہے کہ ہر وقت مرنے کیلئے تیار بیٹھا ہے اور کوئی ہے کہ مر مر کر بھی زندہ ہے۔ سہون کا واقع اپنی سنگینی کی نوعیت سے کوئی پہلا واقع نہیں تھا۔ ہر بار نقصان اٹھانے کے بعد ہی کیوں تدبیریں کی جاتی ہیں اور یہ تدبیریں وقتی کیوں ہوتی ہیں۔ کیوں ہمارے ادارے ان دہشت گردوں کی کاروائیوں کا انتظار کرتے ہیں۔ موت تو سب کیلئے ہیں لیکن ٹیپو سلطان نے کہا تھا کہ “گیدڑ کی سوسال کی زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے”۔ ابھی اس مضمون کا اختتام کرنے ہی لگا تھا کہ چارسدہ میں ایک اور خود کش دھماکہ کی اطلاع آگئی ہے۔ ہمیں انوار الحق جیسے سہولت کاروں کو ڈھونڈنا ہوگا، ہمیں اپنے اداروں پر بھروسہ کرنا پڑے گا کہ وہ اس جیسے ایک ایک سہولت کار کا پتہ بھی چلا سکتے ہیں اور اسے بہت آسانی سے ٹھکانے بھی لگا سکتےہیں۔ ہم بطور قوم ہمیشہ سے ہی اپنے دشمنوں کے خلاف ایک ہیں۔ جہاں قانون ساز اداروں میں قانون شکن لوگ بیٹھے ہوں، جہاں قانون کی بالادستی قائم کرنے والے غیر محفوظ ہوں اور جہاں قانون کے مطابق ملک چلانے کا درس دینے والے آنکھوں پر پٹی باندھے رکھیں ایسے ملک کی اور اسکی عوام کی ذمہ داری کون لیگا؟۔