اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت حتمی مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ عدالت نے جمعرات تک سماعت مکمل ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ چیئرمین نیب اور چیئرمین ایف بی آر عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت عظمی نے پانامہ لیکس میں دونوں اداروں کی کارروائی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
چیئرمین نیب حدیبیہ پیپر کیس میں اپیل دائر نہ کرنے کے مؤقف پر قائم رہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون کی خلاف ورزی ثابت ہوئی تو چیئرمین نیب عہدے پر نہیں رہیں گے۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت کو پانامہ جیسے مقدمات کے فیصلے کا اختیار حاصل نہیں۔
سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ نااہلی کے معاملات متعلقہ فورم پر سنے جاتے ہیں، عدالت کا وضع کردہ قانون تمام اراکین پارلیمنٹ پر لاگو ہو جائے گا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اچھے جج کبھی اپنے دائرۂ اختیار پر قدغن نہیں لگاتے، عدالت کا دائرہ اختیار محدود نہیں۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پانامہ میں کارروائی نہ کرنا نیب کے مفلوج ہونے کی واضح مثال ہے۔ چیئرمین نیب نے انکشاف کیا کہ پانامہ لیکس پر ابتدائی کارروائی شروع کر دی ہے، قانون کے مطابق آگے بڑھیں گے۔
چیئرمین ایف بی آر نے مؤقف اختیار کیا کہ دو ستمبر 2016ء کو پانامہ لیکس میں شامل 343 لوگوں کو نوٹسز جاری کر چکے ہیں، حسن، حسین اور مریم نواز نے نوٹسز کا جواب دے دیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مریم نواز نے آف شور کمپنیوں کی مالک ہونے سے انکار کیا۔ جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آر کو وزارت خارجہ سے رابطہ کرنے میں چھ ماہ لگ گئے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کہ جواب الجواب کے لئے ڈیڑھ دن کا وقت دیا جائے گا۔ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔