تحریر : میر افسر امان ”یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوة دیں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور بدی سے روکیں گے” (الحج ٤١) اقتدار اللہ ہی کی طرف سے ملتا ہے۔ جب مسلمان حکمرانوں کو زمین میں اقتدار دیا جائے گا تو وہ اپنی حکومت میںسب سے پہلے نماز قائم کریں گے۔نماز سے معاشرے میں نظم وضبط پیدا ہوتا ہے جو ہرایک حکومت کے لیے ضروری ہے۔نماز بے حیائی، فحاشی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔ دوسرا حکم ہے کہ وہ زکوٰة کا نظام قائم کریں گے۔ زکوٰة کا نظام قائم کرنا مسلمان حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ زکوٰ ة مسلمانوں کے معاشرے میں غریبوں کا حق ہے۔ امیروں سے وصول کی جاتی ہے اور غریبوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کا کام ہے کہ وہ ملک میں امر بلمعروف اور نہی المنکر کا محکمہ بنائیں، جو عوام کو نیکیوں میں ایک دوسری سے تعاون اور برائیوں میں ایک دوسرے کو روکیں تاکہ مسلمان معاشرے میں نیکیاں پھولے پھلیں اور برائیاں ختم ہوں۔ صاحبو! اس کے ساتھ ساتھ مسلمان حکمران عام مسلمانوں کے سامنے جواب دہ بھی ہوتا ہے۔
مسلمانوں کے لیے سب سے پہلے آئیڈئیل تو ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی علیہ و سلم ہیں جنہوں نے مدینے کے اندر اسلامی ریاست قائم کی اس حکومت کے سربراہ مملکت، کمانڈر انچیف ،مقننہ ، چیف جسٹس ،داخلہ اور خارجہ یعنی وہ تمام امور جو مملکت کے چلانے کے لیے ہوتے ہیں رسول ۖ نے چلا کر دکھا دیے تاکہ آئندہ مسلمان اس پر چل کر دنیا اور آخرت میں سرخ رُو ہوں اللہ تعالیٰ کی براہ راست ہدایات کی روشنی میں یہ سب کام سرانجام پائے وہ اس لیے کہ ائندہ کوئی نبی نہیں آنے والا ہے اور اللہ کبھی بھی اپنی مخلوق کو ہدایت کے بغیر نہیں چھوڑتا یہی اس کی سنت کا تسلسل ہے۔ اللہ کے رسول ۖ انسان تھے ان کے رشتہ دار خاندان اور قبیلہ تھا مگررسول ۖ نے ان تمام معاملات کو ایک بیلنس سے چلا کر دکھایا حکومت سے انتہائی ضرورت کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں اٹھایا لہٰذا کامیاب حکمرا ن وہ ہیں جو اس پر عمل کر کے دنیا اور آخرت میں اپنا مقام بنا سکتے ہیں۔رسول ۖ اللہ کے بعد مسلمانوں کے آئیڈئیل خلفاء راشدین ہیں۔ انہوں نے حکومت کے معاملات اسی طریقے پرچلائے جس طرح رسول ۖ کے احکامات تھے۔وہ بھی انسان تھے ان کی بھی دنیاوی ضروریات تھیں ان کے بھی خاندان اور رشتہ دار تھے مگر دنیا گواہ ہے کہ حکومت اور ان معاملات میں ذرہ برابر بھی بیلنس کوخراب نہیں ہونے دیا۔
اس کی ایک مثال خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق ہیں۔ جب وہ خلیفہ بنے تو دوسرے دن بازار میں کپڑا فروخت کرنے نکلے تو راستے میں حضرت عمر سے ملاقات ہوئی تو حضرت عمر نے ان سے کہا کہ اب تجارت کرنا چھوڑ دو اور مسلمانوں کے بیت المال سے عام شہری کے گزر اوقات کے حساب سے وظیفہ لے کر حکومت کے معاملات چلائو۔ حضرت عمر نے سوچا کہ خلیفہ ہونے کی وجہ سے ہر کوئی ان سے مال خریدے گا ان کی تجارت خوب پھلوں پھلے گی تو ایک وقت آئے گاکہ لوگ خلیفہ پر اعتراض کرنا شروع کر دیں گے۔ ان کے حکومت کے دوران کا ایک واقعہ کہ ان کی بیوی نے وظیفہ سے تھوڑی سی رقم بچا کر ایک دفعہ کھانے میں سویٹ ڈش بنا دی خلیفہ اوّل نے ان سے دریافت کیا یہ فاضل پیسہ کہاں سے آیا۔ کہنے لگی میں نے روزانہ کے خرچے سے بچایا ہے۔ خلیفہ اول نے اتنی رقم مسلمانوں کے بیت المال سے کم لینی شروع کر دی۔یہ ہے مسلمانوں کے آئیڈئیل کا معاملہ۔دوسرے خلیفہ حضرت عمر کے لباس میں کئی پیوند لگے ہوتے تھے جو ٢٢ لاکھ مربع میل اسلامی مملکت کے حکمران تھے۔جب حکومت کے کام کر رہے ہوتے تو روشنی کے لیے تیل حکومت کے فنڈ سے استعمال کرتے تھے جب وہ ذاتی کام کرتے تھے توحکومتی دیا بجھا دیتے تھے اپنے ذاتی پیسے سے روشنی کا انتظام کرتے تھے۔ ہمارے تیسرے خلیفہ تاجر اور بہت مالدار تھے۔ خلیفہ بننے سے پہلے بھی دین کے کاموں کے لیے رسول ۖ اللہ کی مالی مدد کیا کرتے تھے۔ جنگ تبوک کے موقعہ پر کئی اونٹوں اور نقد پیسوں سے اللہ کے رسولۖ اللہ کی مدد کی تھی۔
Hazrat Umar
حضرت عمر کے دور میں جب مدینہ کے لوگوں کو غلہ کی ضرورت بڑی تو غلے سے لدے ہوئے اونٹ مسلمانوں کے بیت المال میں بغیر قیمت کے دے دیے۔ جب خلیفہ بنے تو ان کی تجارت ختم ہو گئی ۔ فرماتے تھے جب میں خلیفہ ہ نہیں تھا تو عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریوں کا مالک تھا۔ اب خلیفہ ہوں تو میرے پا س ایک بکری دودھ کے لیے اور ایک اوٹنی حج کے سفر کے لیے ہے۔ ہمارے چوتھے خلیفہ جب شہید کر دیے گئے تو ان کے صاحب زادے نے عوام کے سامنے ان کے اثاثے ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے پاس چند سو درم کے سو ا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ صاحبو! یہ نقشہ ہم نے آپ کے سامنے اس لیے بیان کیا ہے۔ تاکہ ہم اپنے موجودہ حکمرانوں کا خلفاء راشدین جو مسلمانوں کے آئیڈلز ہیں سے تقابل پیش کریں۔ اور دوسرے لفظوں میں مسلمان حکمرانوں کو شرم دلائیں کہ آپ کے آئیڈیل کیسے تھے اور آپ کیسے ہیں۔اس موقعہ پر پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کا واقع بیان کر نا ہمارے حکمرانوں کے لیے مشل راہ بھی بن سکتا ہے۔ پاکستان کی کیبنٹ کا پہلا اجلاس تھا۔ قائد اعظم سے ان کے اے ڈی سی نے معلوم کیا کہ کیبنٹ کی میٹنگ میں وزرا کو چائے پیش کی جائے یا کافی۔ تو قائد محترم نے فرمایاتھا کہ کیا یہ لوگ گھر سے چائے پی کر نہیں آئیں۔ اب موجودہ حکمرانوں کے خرچوں کا ذکر کرتے ہیں۔
اس سے پہلے صدر صاحب نے صدارتی کیچن کی تیزئین و آرائش پر سترہ کروڑ خرچ کیے گئے تھے۔ اخبارات کے مطابق ان کے گھوڑے مربے کھاتے تھے۔ملک اور بیرون ملک ان کے اثاثوں اور محلات ہیں جن میں سرے محل بھی شامل ہے۔ موجودہ وزیر اعظم صاحب کے لاہور میںجاتی عمرہ محل موجود ہے اس کی سیکورٹی کے لیے پاکستان کے خزانے سے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ان کے بیرون ملک دورے کے لیے اسپیشل جہاز پی آئی ایے تیار کرتی رہتی ہے ۔اب بھی ترکی کے دورے کے لیے پی آئی اے کا جہاز چارٹر کیا گیا جس پر کروڑوں کا خرچہ ہے۔ اسی طرح ان کا اوران کے وزرا کا علاج باہر ممالک میں ہوتا ہے۔ ان کے بچے باہر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کے بچے باہر رہتے ہیں باہر تجارت کرتے ہیں۔ ان کے اثاثے پاکستان سے باہر غیر ملکوں میں موجود ہیں۔ ان پر کرپشن کے مقدمے قائم ہیں۔
مقدمے کی سماعت کے دوران ججز کا تبصرہ سننے کے قابل ہے کہ ملک کے ادارے حکمرانوں کی کرپشن کو نہیں پکڑیں گے تو کون پکڑے گا۔ اے اہل وطن کیا آپ ایسے ہی حکمرانوں کو اپنے ووٹ سے منتخب کر تے رہیں گے۔ یہ حکمران آپ کی امانتیں سنبھالنے کے بجائے ان میں خیانت کی مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں عوام کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں۔ عوام سپریم کورٹ سے درخواست کرتے ہیں پاماما لیکس کیس میں عوام کو جلد از جلدانصاف دلایا جائے۔ کرپشن ثابت ہونے کی صورت میں عوام سے لوٹا ہوا پیسا عوام کے خزانے میں جمع کیا جائے۔ تاکہ عوام کے وکھوں کا مداوا ہو سکے۔