واشنگٹن (جیوڈیسک) شام کے داخلی مذاکرات سے وابستہ اقوام متحدہ کے مصالحت کار نے کہا ہے کہ اُنھیں کسی پیش رفت کی توقع نہیں۔
شام امن بات چیت کے نئے مرحلے کے موقع پر، شام کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی، استفان ڈی مستورا نے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کیں۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ طویل مدت سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے کوششوں میں سیاسی لحاظ سے تیزی آئی ہے۔
شام کی لڑائی میں ملوث فریق نے تقریباً نو ماہ قبل جنیوا میں ملاقات کی تھی۔ بات چیت کا یہ مرحلہ اِس لیے ٹوٹا چونکہ جنگ بندی کے بار بار سمجھوتے کی خلاف ورزیاں سامنے آتی رہیں۔
ڈی مستورا نے یہ بات تسلیم کی کہ ناکام مذاکرات کی کامیاب بحالی کا انحصار لڑائی میں ملوث فریق کی جانب سے موجودہ جنگ بندی پر پابندی کرنے پر ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ روس، جس نے قزاقستان کے دارالحکومت، آستانہ میں ترکی کے ساتھ سمجھوتا طے کیا تھا، وہ اِس نازک جنگ بندی پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہا ہے۔
بقول اُن کے، ’’فائر بندی سے متعلق ٹاسک فورس کے اعلان کے بعد آج روسی وفاق نے موجود تمام ملکوں سے اور مجھے بتایا کہ اُنھوں نے حکومتِ شام سے باضابطہ درخواست کی ہے کہ وہ اپنے طور پر اپنے علاقوں میں جنگ بندی کی پابندی کرے، جو علاقہ جنگ بندی کے حلقے میں شامل ہے، جب شام کے اندرونی مذاکرات جاری ہوں‘‘۔
ڈی مستورا نے مزید کہا کہ اُنھوں نے حزب مخالف کی جماعتوں پر اثر و رسوخ رکھنے والے ملکوں سے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی پر عمل درآمد کریں، اور دوسرے فریق کے لیے اشتعال کا باعث نہ بنیں۔