تحریر: ملک ابوبکر یعقوب اللہ تعالیٰ نے بہت ہی محکم انداز میں اس کائنات کو رچایا اور بسایا۔اس کائنات میں جن و انس کی خلقت فرمائی اور ان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ جاری فرمایا۔رسولوں کی آمد کا یہ سلسلہ آخری نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ منقطع ہو گیا تو رب تعالیٰ نے انبیاء کرام کے مشن کی انجام دہی کے لئے علمائے کرام کی جماعت تیار فرمائی۔ علمائے کرام حقیقی معنوں میں سماج و معاشرہ کی اصلاح کے اولین ذمہ دار اور انسانیت کے حقیقی بہی خواہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے کاندھوں پر عوام کو سیدھی راہ دکھانے کی ذمہ داری رکھی ہے اور کتاب و سنت کی توضیح و تفسیر اور دعوت و ارشاد کا فریضہ عائد کیا ہے۔ رب تعالیٰ کی زبانی یہ لوگ رب تعالیٰ سے حقیقی معنوں میں خوف کھاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”انما یخشی اللہ من عبادہ العلمائ” بلکہ رب تعالیٰ نے ببانگ دہل قرآن مجید میں یہ وضاحت فرمادی ہے کہ عالم اور جاہل بہرصورت برابر نہیں ہوسکتے۔فرمایا:” اے نبی ! آپ بتائیے کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہوسکتے ہیں۔ احادیث مبارکہ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ علمائے کرام کا مقام و مرتبہ انتہائی بلند و بالا ہے۔اللہ تعالیٰ جسے علم شرعی کے حصول کی توفیق بخشتا ہے گویا اس کے حق میں خیر کا ارادہ فرماتا ہے۔یہی نہیں، حدیثوں میں وارد ہے کہ ایک عالم جتنے انسانوں کو علم سکھاتا ہے ، وفات کے بعد بھی اس کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جب انسان مرجاتا ہے تواس کے لئے نیکیوں کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے۔
سوائے تین اعمال کے۔ان میں سے ایک عمل یہ ہے کہ انسان نے اپنے پیچھے ایسا علم چھوڑا ہو جس سے لوگ فائدہ اٹھارہے ہوں۔پاکستان کے نامور،مایہ ناز خطیب رہنما علامہ احسان الٰہی ظہیر اس فانی دنیا سے اس طرح رخصت ہوئے کہ دنیا دیکھتی رہ گئی وہ صرف چھیالیس برس کے تھے مگر اس دوران انہوں نے صدیوں کا فاصلہ طے کر لیا تھا۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ مدینہ ان کا دوسرا گھر تھا۔ انہوں نے امتیازی شان سے امتحانات پاس کئے تھے اور ان کی زندگی مدینے والے ہی کے پیغام کو عام کرنے میں وقف تھی۔توحید کا ترانہ انہوں نے اس شان سے گایا کہ سننے والے جھوم جھوم اْٹھے۔
راوی پارک لاہور میں ایک جلسے میں خطاب کرنے گئے مگر بم دھماکے نے سارا نقشہ ہی بدل دیا اور خوش نصیب اتنے ٹھہرے کہ جنت البقیع میں ان کے جسدِخاکی نے جگہ پائی۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر نے شورش کاشمیری کے بعد خطابت کے میدان پر کئی برس تک حکمرانی کی۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید حافظ قرآن بھی تھے اور سنت کے عالم بھی تھے۔ تاریخ کے ماہر بھی، عربی، اردو اور فارسی کے ادب سے شناسا بھی تھے۔ افسوس صد افسوس،23 مارچ 1987ء کو فرزندان توحید کا قافلہ لٹا، پاسبانانِ قرآن و سنت کا کارواں تاراج ہوا۔ اور دنیائے اسلام کے مایہ ناز خطیب، بے مثال ادیب، لاکھوں دِلوں کی دھڑکن، شہید راہِ حق، علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمة اللہ علیہ ہم سے جدا ہو گئے۔ مگر آج تک علامہ شہید کے قاتلوں کو بے نقاب نہیں کیا گیا حکومت پر لازم ہے کہ وہ ان کے قاتلوں کا کھوج لگا کر کیفرِ کردار تک پہنچائے۔ علامہ ابتسام الہیٰ ظہیر نے ابتدائی تعلیم حفظِ قرآن سے لے کردرسِ نظامیہ اور عالم فاضل تک جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ اور جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے حاصل کیں،اعلیٰ تعلیم کیلئے اسلامک یونیورسٹی مدینہ منورہ تشریف لیگئے، سن 1969 میں ممتاز ڈویڑن سے پاس ہوکر وطن آگئے اور پنجاب یونیورسٹی سے چھ مضامین میں ایم اے کیا ،آپ کئی زبانوں میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔
انہوں نے زمانہ تعلیم ہی سے تصنیف و تالیف کا کام شروع کردیا تھا،کم وبیش بیس ضخیم کتابیں تالیف کیں اس کے علاوہ بے شمار مقالات و مضامین لکھے،ان کی آخری کتاب شہادت سے صرف آٹھ گھنٹے قبل مکمل ہوئی تھی، اکثر کتب کے دس سے زیادہ ایڈیشن نکل چکے ہیں،دنیا کی اکثر زندہ زبانوں میں ان کتابوں کے ترجمے ہوئے ہیں۔عربی ، اردو ، فارسی ،انگریزی،کے علاوہ ترکی،تھائی،انڈونیشی،اور مالدیپی زبانوں میں ان کی کئی کتابیں کئی بار اور کئی کئی ترجموں کے ساتھ نکل چکی ہیں،:میدانِ صحافت میں طویل عرصہ رہے اور مختلف اوقات میں ہفت روزہ “الاعتصام”ہفت روزہ “اہلِ حدیث”ہفت روزہ “الاسلام”کے مدیر رہے اور پھر اپنا ذاتی ماہنامہ “ترجمان الحدیث”نکالا،جس کے تاحیات مدیر رہے۔
اپنی دینی،علمی اور فکری مصروفیات کے سبب 1968 تک آپ سیاست سے دور رہے،1969 میں میدانِ سیاست میں قدم رکھا،بھٹو دور میں کئی بار قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں،عزائم میں فرق آنا تو کجا آپ کے لہجے میں تک کوئی فرق نہ آیا بلکہ”آئیں جواں مرداں حق گوئی و بیباکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی ”کی زندہ مثال بن کرہے۔تحریکِ استقلال میں زبردست حصہ لیا یہاں تک کہ اس کے مرکزی ناظمِ اطلاعات بھی رہے،1977 میں تحریکِ استقلال کے قائم مقام سربراہ بنائے گئے۔بنگلہ دیش نامنظور تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔
تحریکِ نظامِ مصطفی کیلئے بڑی کوششیں کیں۔ضیاء الحق صاحب کی حکومت نے آپ کو علمائے کرام کی ایڈوائزری کونسل کا کارکن نامزد کیا لیکن آپ نے استعفیٰ دے دیا۔تحریکِ استقلال سے علٰیحیدگی کے بعد جمعیت اہلحدیث کی تنظیمِ نو کی اور اس کو زبردست کامیابی سے ہمکنار کیا۔اہلِ حدیث یوتھ فورس کی بنیاد ڈالی جس کے ذریعہ نوجوانانِ اہل حدیث میں جہاد کی روح پھونکی۔جمعیت اہلِ حدیث کے جنرل سیکریٹری رہے۔آپ کی سیاسی سرگرمیوں سے خوفزدہ ہوکر حکومتِ پاکستان نے بارہا فرضی مقدمات میں پھنسایا اور جائداد کی قرقی کے احکامات صادر کیے مگر پائے ثبات میں ذرہ برابر لغزش نہ آئی۔آپ کی علمی و فکری قابلیت نے آپ کو متعدد بار غیر ملکی دوروں پر آمادہ کیا،دنیاکے کونے کونے سے کانفرسوں اور سیمناروں میں شرکت کی دعوتیں آتی رہتیں،جن میں آپ اکثر شامل ہوا کرتے۔سعودی عرب، کویت، قطر،متحدہ امارات و مصر میں آپ کا اکثر آنا جانا ہوتا علاوہ ازیں امریکہ، برطانیہ، کنیڈا، سوڈان، تھائی لینڈ،انڈونیشیا،ملیشیا کے بھی متعدد دورے کئے تھے۔
علامہ احسان الہیٰ ظہیر کی شہادت کے بعد موجودہ دور میں علامہ ذاکر الرحمان صدیقی انکے مشن،منہج اور دعوت کو لے کر قریہ قریہ ،گائوں گائوں جا کر شہید علامہ کا پیغام سنا رہے ہیں۔ علامہ ذاکر الرحمان صدیقی علامہ شہید کے مشن پر جاری و ساری ہیں اورتحفظ ختم نبوت، پاکستان کی اسلامی نظریاتی شناخت کے تحفظ کے لئے ہر دم میدان عمل میں ہیں،روشن خیالی کے نام پر اسلامی شعائر کا مذاق اڑاناکسی صورت انہیںبرداشت نہیں۔علامہ ذاکر الرحمان صدیقی نوجوانوں کو کتاب و سنت اور دین پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں۔دعوت کے دو بنیادی کردار ہیںایک داعی اور دوسرا مدعو۔ تا ہم دعوت کی کامیابی کا مکمل انحصار داعی کی ذات پر ہے کیونکہ دعوت کے مضامین خواہ کتنے ہی پرکشش کیوں نہ ہوں، اگر داعی کا طریقِ دعوت ڈھنگ کا نہیں ہے اور وہ مخالف کو حالات کے مطابق مختلف اسالیب اختیار کرکے بات سمجھانے کی قدرت نہیں رکھتا تو اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جو بات ایک پہلو سے سمجھ میں نہیں آتی، وہی بات جب دوسرے انداز سے سامنے آتی ہے تو دل میں اتر جاتی ہے۔ مبلغ کی کامیابی صرف اس بات میں ہے کہ دوست دشمن سبھی پکار اٹھیں کہ اس نے ابلاغ کا حق ادا کردیا ہے۔علامہ ذاکر الرحمان صدیقی کو اس بات کا ملکہ حاصل ہے کہ وہ سب کے پاس جاتے ہیں اور سب کو دعوت دیتے ہیں اسی لئے وہ نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں،جہان انکا پروگرام ہو نوجوان پہنچتے ہیں۔دعوت کی کامیابی میں مرکزی کردار داعی کا ہے۔ داعی جس قدر تربیت یافتہ اور انسانی نفسیات کا عالم ہوگا، اسی قدر اس کی دعوت مؤثر ہو گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مؤثر ہونے کی ایک اہم وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی کردار تھا تو تو دوسری بنیادی وجہ آپ کا اسلوب دعوت تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ مخاطبین کی ذہنی استعداد، میلانات، رجحانات اور ان کے خاندانی و علاقائی پسِ منظر کو سامنے رکھ کر دعوت کا کام کیا۔ سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی متعین طریقِ دعوت نہ تھا بلکہ مخاطبین دعوت کے تبدیل ہونے کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلوب دعوت بھی تبدیل ہوجاتا تھا۔ ایک جاہل، ان پڑھ اور اجڈ مخاطب کو دعوت دینے کا انداز پڑھے لکھے اور شہر کے رہنے والے فرد سے مختلف ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت زندگی کا مطالعہ ہر داعی اسلام کے لیے اس حوالے سے دلچسپ بھی ہے اور قابل تقلید بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ مخاطب کی صلاحیت کو پیش نظر رکھ کر اس کو دعوت پیش کی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے بعد لوگ مطمئن ہوکر واپس جاتے تھے۔علامہ ذاکر الرحمان صدیقی کہتے ہیں کہ نوجوان قرآنی تعلیمات کے فروغ کے لئے کردار ادا کریں اس وقت پاکستان اندرونی و بیرونی خطرات سے دو چار ہے، بھارتی سازشیں، امریکی ریشہ دوانیاں اورایرانی سرگرمیاں پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں،پاکستان میں فساد برپا کرنا بیرونی قوتوں کا ایجنڈا ہے ، ان خطرات کا سد باب صرف اور صرف نظام اسلام میں ہے۔قادیانیوں جیسے اندرونی دشمنوں پر بھی نگاہ رکھنی ہو گی، پاکستان اور اسلام ہماری سیاسی جدو جہد کے دو مرکز ہیں ہم اقتدار کی نہیں اقدار کی سیاست کرتے ہیں۔اسلامی اقدار کا تحفظ ہمارا مشن اور ایجنڈا ہے۔