دہشت گردی کی لہر اور آپریشن ردالفساد

Lahore Blast

Lahore Blast

تحریر : حبیب اللہ قمر
دہشت گردوں نے ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلتے ہوئے لاہور کے علاقہ ڈیفنس کو نشانہ بنایا جہاں دھماکہ سے دس افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔یہ تخریب کاری کی ایک خوفناک واردات ہے جس میں منظم منصوبہ بندی کے تحت اس شہر کو نشانہ بنایا گیا ہے جہاں پی ایس ایل کا فائنل ہونے جارہا ہے اور دنیا کے مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والی ٹیموں کے کھلاڑیوں کی آمد یہاں متوقع ہے۔ پاکستان کی دشمن قوتیں کسی طور نہیں چاہتیں کہ بین الاقوامی سطح پراس ملک میں امن و امان کی بہتری کا کوئی تاثر جائے اس لئے خاص طور پر ان دنوں میں دہشت گردی کی وارداتوں میں تیزی لائی گئی ہے۔ بھارت سمیت دیگر قوتیں پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال پر سوالیہ نشان لگانا چاہتی ہیں۔دس دن قبل لاہورمیں ہی پنجاب اسمبلی کے سامنے ڈرگ ایکٹ ترمیم کیخلاف دیے جانے والے دھرنے میں خودکش دھماکہ کیا گیا جہاں ڈی آئی جی ٹریفک احمد مبین، ایس ایس پی زاہد گوندل اور چھ دیگر اہلکاروں سمیت پندرہ افراد شہید’ ایک سو کے قریب زخمی ہوئے۔ کیپٹن(ر) مبین تین صوبوں میں دہشت گردی کیخلاف لڑتے رہے۔ کوئٹہ اور کراچی میں بھی تعینات رہے تاہم لاہور میں وہ ایک افسوسناک سانحہ میں دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔اس دھماکہ کی ذمہ داری کالعدم تنظیم جماعت الاحرار نے قبول کی۔ تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق اس خودکش حملہ آور کو افغانستان سے بھیجا گیا ۔ لاہور،پشاوراور ڈی آئی خاں سے گرفتار کئے گئے سہولت کاروں نے واضح طور پر اعتراف کیا کہ انہیں افغانستان میں ٹریننگ دی گئی۔پندرہ سے بیس مرتبہ وہاں لیجایا گیا اور خودکش جیکٹس پہنچائی گئیں جن کے ذریعہ دھماکہ کیا گیا۔ ابھی چیئرنگ کراس مال روڈ پر ہونے والے دھماکہ کی گرد نہیں تھمی تھی کہ پشاور اور مہمند ایجنسی کے حیات آباد علاقہ میں دہشت گردی کی وارداتیں کی گئیں جن میں سات افراد شہید اور چار جج زخمی ہوئے۔ اسی طرح اگلے دن ہی سولہ فروری کو سہون شریف دربار سندھ میں خوفناک دھما کہ کر کے قیامت صغریٰ کا ماحول پید ا اور سینکڑوں افراد کو خون میں نہلا دیا گیا جن میں سے ستر سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ۔ یہ دہشت گردی کی ایک بدترین واردات تھی۔

جب لاہور، کراچی اور خیبر پی کے میں دہشت گردی ہو رہی تھی تو عین اسی موقع پر بھارت سرکار کی طرف سے پاکستان کو دبائو میں لانے کیلئے کنٹرول لائن پر فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔دشمن کے عزائم واضح نظر آرہے تھے۔ان دھماکوں اور دہشت گردی کی وارداتوں کی ذمہ داری بھی جماعت الاحرار نے قبول کی اور بعد ازاں اس امر کا بھی انکشاف ہوا کہ مذکورہ تنظیم کی طرف سے چلائی جانے والی ویب سائٹ ہندوستانی شہر چنائی سے چلائی جارہی ہے۔ یعنی اس تخریب کاری کی ساری وارداتوں میں انڈیا کے ملوث ہونے پر ایک بار پھر مہرتصدیق ثبت ہو گئی ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ افواج پاکستا ن کی جانب سے دہشت گردی کی حالیہ لہر کچلنے کیلئے جرأتمندانہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوںپر بمباری کر نے کا فیصلہ یقینا قابل تحسین ہے۔ اسی طرح آپریشن ردالفساد کا آغاز بھی پوری پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ جس دن اس آپریشن کا آغاز ہوا اور ملک بھر میں کومبنگ آپریشن کے دوران ایک سوسے زائد دہشت گردہلاک کئے گئے اسی دن بھارتی ٹی وی چینلز نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور انتہائی غلیظ پروپیگنڈا کیا گیاکہ پاک فوج کے آپریشن کا اعلان کرنے پر چوبیس گھنٹے میں اتنے دہشت گردمار دیے گئے ہیں لیکن پچھلے چوبیس سال سے جو لوگ کشمیرمیں تحریک آزادی کو پروان چڑھا رہے ہیں ان کیخلاف کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ۔ حافظ محمد سعید و دیگر رہنمائوں کی محض نظربندی کافی نہیں ہے۔ پاکستان مزید اقدامات اٹھائے اورانہیں ہندوستان کے حوالے کرے۔

انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ پاک فوج اور عسکری ادارے تو دہشت گردی کچلنے کیلئے پوری قوت صرف کر رہے ہیں مگر سیاسی حکومت کا کردار اس حوالہ سے لائق تحسین نہیں ہے۔بین الاقوامی سطح پر انڈیا کی دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے حکومت پاکستان کو جو کردار ادا کرنا چاہیے وہ نہیں کیا جارہاجس کی وجہ سے جنرل (ر) راحیل شریف کی نگرانی میں کئے جانے والے آپریشن ضرب عضب کے ثمرات صحیح طورپر حاصل نہیں ہو پارہے۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے کنٹرول لائن کا دورہ کرتے ہوئے ہندوستانی جاسوس کلبھوشن کے کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی بات کی ہے۔ ہندوستانی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن کا معاملہ اٹھانا سیاسی حکومت کا کام ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ پہلے ان ایشوز پر جنرل(ر) راحیل شریف اور اب جنرل قمر جاوید باجوہ بات کر رہے ہیںمگر حکومتی عہدیداران کو اس حوالہ سے کچھ کہنے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم نواز شریف کی زبان سے آج تک اس سلسلہ میں ایک لفظ تک نہیں نکلا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت انڈیا کی دہشت گردی کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کرتی اور کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی کا مسئلہ اٹھایا جاتا تاہم ایسا کرنے کی بجائے حکومت بھارت سے دوستی نبھانے کیلئے اپنوں کیخلاف ہی اقدامات اٹھانے میں مصروف ہے۔

Kashmir Day

Kashmir Day

پہلے پانچ فروری سے چند دن قبل جب پوری قوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن منانے کی تیاریاں کر رہی تھی تو پاکستان میں کشمیریوں کی سب سے مضبوط آواز حافظ محمد سعید اور ان کے چار دیگر ساتھیوں کو نظربند کر دیا گیا اور اب حال ہی میں پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف جرمنی کے شہر میونخ میں ایک کانفرنس میںشرکت کیلئے گئے تو وہاں نیا شوشہ چھوڑ دیا کہ حافظ محمد سعید معاشرے کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں اس لئے انہیں نظربند کیا گیا ہے۔ ان کی اس بات پر بھارتی ایوانوں میں جشن کا سماں دکھائی دیا اور بی جے پی وزراء دنیا پر ڈھنڈورا پیٹنے لگے کہ ان کا موقف سچ ثابت ہو گیا اور آج پاکستان نے بھی انڈیا کے الزامات کو درست تسلیم کر لیا ہے۔ بھارت کو اس وقت سب سے زیادہ تکلیف اس بات کی ہے کہ جماعةالدعوة کے سربراہ اگر نہتے کشمیریوں کی نسل کشی اور بھارتی آبی جارحیت کیخلاف آواز بلند کرتے ہیں تو بلوچستان میں تخریب کاری و دہشت گردی روکنے میں بھی ان کا مضبوط کردار ہے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کی بلوچستان اور سندھ کے دور دراز علاقوں میں جاری امدادی سرگرمیوں سے علیحدگی کی تحریکیں دم توڑ رہی ہیں اور سی پیک منصوبہ محفوظ ہوا ہے۔اسی طرح وطن عزیز میں فرقہ واریت اور فتنہ تکفیر کے خاتمہ کیلئے بھی جماعةالدعوة کا اہم کردار ہے یہی وجہ ہے کہ آج یہ باتیں انڈیااور دیگر دشمن قوتوں کو برداشت نہیں ہو رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت پاکستان خود بھارت سرکار کی راہ کے کانٹے چننے میں مصروف ہے اور محض مودی سرکار سے دوستی کی پینگیں پروان چڑھانے کیلئے ملکی سلامتی و خودمختاری کو دائو پر لگایا جارہا ہے۔

لاہور، پشاور اور سہون شریف سندھ میں ہونے والی دہشت گردی کی تمام وارداتوںمیں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ملوث ہونے کے واضح شواہد ملنے کے باوجود وزیر اعظم نوازشریف اور ا ن کی کابینہ کا کوئی وزیر بھارتی دہشت گردی کیخلاف آواز بلند کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ افغانستان میں قائم قونصل خانوں میں دہشت گردوں کو تربیت دیکر پاکستان داخل کرنا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اور بھارتی ایجنسیوں کے دیگر عہدیداروں کی افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے اہلکاروں سے ملاقاتیںریکارڈ پر ہیں۔بھارت افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کی آگ بھڑکانے کیلئے اربوں روپے خرچ کر رہا ہے۔یہ جنگ کا ایک نیا انداز ہے جو پاکستان کیخلاف بھارتی ایجنسی را، این ڈی ایس، سی آئی اے اور موساد کی طرف سے اختیار کیا گیا ہے۔ہمیں ان سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے پالیسیاں تبدیل اور اپنوں و غیروں میں فرق ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔ حافظ محمد سعید و دیگر رہنمائوں کی نظربندی پر پورے ملک میں ایک ہیجان کی کیفیت ہے۔ سیاسی، مذہبی، کشمیری و سماجی جماعتوں سے تمام مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے سخت بے چینی کا اظہار کیاجارہا ہے۔ چاروں صوبوں و آزاد کشمیر میں مظاہرے کئے جارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کو بھی شاید ان نظربندیوں کیخلاف ایسے مضبوط ردعمل کی کسی صورت توقع نہیں تھی۔

بہرحال یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ جماعةالدعوة کی قیادت نے کارکنان کی تربیت اس انداز میں کی ہے کہ اتنا کچھ ہونے اور ملک گیر احتجاج کے باوجود کسی جگہ ایک پتہ تک نہیں ٹوٹالیکن حکومت کو بھی تو کچھ خیال رکھنا چاہیے۔ بیرونی قوتیں تو پہلے ہی یہی سازشیں کر رہی ہیں کہ جماعةالدعوة کیخلاف اقدامات کرواکے ان کے لاکھوں کارکنان کو مشتعل کیا جائے اور ان کے جذبات کو برانگیختہ کر کے مذموم سازشوں میں رنگ بھرا جائے۔ ہمیں ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے دشمن کی ان سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔اس کیلئے حافظ محمد سعید ودیگر رہنمائوں کی فی الفور رہائی اور خواجہ آصف جیسے وزرا ء کو اپنی گفتار پر کنٹرول رکھنا ہو گا۔پاک فوج کی طرف سے شروع کیا گیا آپریشن ردالفساد پوری قوم کی امنگوں کا ترجمان ہے۔ اس کے یقینا دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔علماء کرام اور دینی قیادت کی طرف سے اس آپریشن کی بھرپور حمایت کی گئی ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ آپریشن جاری رکھنے کی طرح علمی سطح پربھی اس فتنہ کا رد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان نوجوانوں کو گمراہی کا شکار ہونے سے بچایا جاسکے جو دشمن کے ہاتھوں میں کھیل کر دہشت گردی کی اس آگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔

Habib Ullah Qamar

Habib Ullah Qamar

تحریر : حبیب اللہ قمر
munzir007@gmail.com