تحریر : رضوان اللہ پشاوری یہ ایک دن، ایک مہینے یا ایک سال کا واقعہ نہیں اور نہ ہی کسی ایک پاکستانی باشندے، کسی قریہ یا کسی مدینہ والے کی بات ہے بلکہ ہر نئے دن اور ہر کوچہ کوچہ والوں سے یہ واقعہ سُننے کو ملتا ہے کہ اس دفعہ ہمارا بجلی کا بل آسمان سے باتیں کرنے لگا ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک دفعہ میں علی الصباح گھر سے نکل پڑا،راستے میں ایک گدھا گاڑی والا آ رہا تھا،میں نے اسے کہا کہ بھائی جان مجھے بھی سٹاپ تک ساتھ لے جانا، اس نے کیوں نہیں کہ کر مجھے بھی گدھا گاڑی میں بٹھا دیا، باتوں باتوں میں یہ بات بھی کر گیا کہ اس دفعہ بجلی کے بل سے مجھے سخت کوفت ملی ہے، میرے گھر میں ایک کمرہ ہے، جس میں ایک انرجی سیور جبکہ ایک ایک انرجی سیور کچن اور صحن میں لگائی گئی ہیں۔
کمرے میں ایک چھت کا پنکھا ہے مگر ابھی تو پنکھا لگانے کا وقت ہی نہیں ہے،میرے گھر میں مغرب کے بعد سے عشاء تک اور صبح نماز کے وقت انرجی سیور روشن رہتے ہیں،اب ان تین انرجی سیور زکا خرچہ 8000 ہزار ہے؟کہ میرا بجلی بل اس دفعہ آٹھ ہزار آیا ہے،میں غریب آدمی ہوں گھر سے صبح کاذب کے وقت نکلتا ہوں، سبزی منڈی جاکر وہاں سے سبزی لاد کر پبی بازار لاتا ہوں، یہی گدھا گاڑی میرا سب کچھ ہے۔
Wapda
میں اسی کے زریعے رزق حلال کماتا ہوں،کل بھی واپڈا گیا تھا اور ان کو یہ سب رونا رویا ہوں،مگر میرا رونا کسی کام کا نہیں،بس میں نے انہیں خدا کا واسطہ دیا اور کہا کہ آپ لوگ میرے گھرکا وزٹ کر کے خود ہی دیکھ لے اور پھر اپنے اس بل پر بھی نظر ثانی کر لیں،لیکن انہوں نے مجھے بری طرح ذلیل کر کے وہاں سے رخصت کر دیا،اب جی میں آتا ہے کہ بجلی لائن ختم ہی کر لوں۔
جب سردی کا یہ عالم ہے تو گرمی کا کیا کہنا؟
اس واقعہ کے چند ہی دن گذرے تھے کہ جب میں اپنے گھر واپس آیا تو گھر میں کہا گیا کہ ابّوجان کل کام کے لیے نہیں جائیں گے،میں نے حیرت سے وجہ پوچھی تو کہا کہ ہمارا بجلی کا بل آسمان سے باتیں کرنے لگا ہے،واپڈاہاؤس جائیں گے،بڑے آفیسر حضرات سے بات کر کے بل کی تصحیح کرائیں گے،ابّوجان سے بات کی کہ اصل ماجرا کیا ہے،تو انہوں نے کہا کہ بیٹے ہم نے اس مہینہ میں 70یونٹ خرچ کئے ہیں جبکہ انہوں نے 300کے قریب یونٹ بل میں ڈالے ہیں،تو اس کا کیا بنے گا،میں نے حیرت سے پوچھا،ابوجان نے تسلی بخش جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ بیٹے یہ ان لوگوں کی عادت مستمرہ ہے، یہ لوگ نہیں سنورتے،بس واپڈا والوں نے تو عوام کا لوٹنا ہی سیکھا ہے،چہ جائے کہ واپڈا والے عوام کی خدمت کر لیں،دن رات کے چوبیس گھنٹے ہوا کرتے ہیں ان چوبیس گھنٹوں میں بارہ گھنٹے بجلی ہوتی ہے اور بارہ گھنٹے نہیں مزے کی بات یہ ہے کہ اب تو موسم بھی سرما کاچل رہا ہے اور بجلی بل کا یہ عالم ہے۔
نا معلوم کہ گرمی میں بجلی بلوں کے کیا حال ہوں گے،خیر ابوجان جمعہ کے دن واپڈا ہاؤس گئے اور بل کے بارے ان سے بات چیت کی،انہوں نے ہمیں تسلی دیتے ہوئے یہی کہا کہ اب تو ہم اس کو کم کر دیں گے،مگرا ئندہ مہینے میں یہ یونٹ دوبارہ آئیں گے،ابوجان نے کہا کہ ہمارے میٹر میں تو اتنا خرچہ ہے ہی نہیں تو کہاں سے دوبارہ یہ یونٹ آئیں گے؟اس پر اس آفیسر نے دل میں گھنگھناتے ہوئے کہا کہ باباجان اس میں ہم کچھ کمی نہیں کر سکتے،ابوجان نے منت سماجت کی تو بجلی بل کم کر کے آدھا کر ڈالا۔
قارئین کرام یہ بات آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ میں نے جو یہ دو واقعے لکھے تو یہ کسی اور جگے کے نہیں ہیں بلکہ یہ ہمارے وزیر اعلیٰ صوبہ خیبر پختونخوا (جناب پرویز خٹک)کے علاقے بانڈہ نبّی پبّی کے واقعات ہیں،جہاں پر وزیراعلیٰ خود ہی کمپین کے لیے گھر گھر گشت کیا کرتے تھے،مگر اب وزیراعلیٰ ہمارے پاس سے بھی نہیں گزرتے،ہم اپنے وزیراعلیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ کم از کم اپنے حلقہ میں تو اس بجلی کے ناروا لوڈ شیڈنگ اور غیر متوقع بجلی بلوں کا از خود جائزہ لیے اور خود ہی ایک دن مقرر کر کے بانڈہ نبّی پبّی کے عوام کو اذن عام کرڈالے کہ آج میں آپ کے مسائل سُننے کے لئے یہی پر ہوں ہر ایک کو کھلے عام اجازت ہے کہ وہ آکر اپنے مسائل بیان کر لیں،وگرنہ اس واپڈا کو بھی فوج کے حوالہ کر دے تاکہ اس میں بھی ردالفساد شروع کر لیں کیونکہ اسی ردالفسادکی وجہ سے عوام میں خوشی کی لہریں دوڑئیں گے۔