تحریر : پروفیسر رفعت مظہر دہشت گردی کی اٹھتی نئی لہر کے تانے بانے ہمارے بَدترین دشمن بھارت سے مِلتے ہیں جو بَدقسمتی سے ہمارا پڑوسی بھی ہے۔ اِس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ برادر اسلامی ملک افغانستان اُس کے سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ احسان ناسپاسی کی انتہا یہ کہ پاکستان لَگ بھگ چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو عشروں سے پناہ دیئے ہوئے ہے اور اِس دوران اُن پر لگ بھگ ایک اَرب ڈالر صَرف بھی کر چکا ہے لیکن پھر بھی افغان صدر اشرف غنی بھارتی وزیرِاعظم کی جھولی میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زہر اُگلتا رہتا ہے۔ اگر ان افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کی بات کی جاتی ہے تو ہمارے سیاسی لیڈر کمر کَس کر میدان میں کود پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو مجبوراً افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کرنا پڑیں۔یہ ایک طویل موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا مگر آج تو ہمیں آپریشن رَد الفسادپر کچھ کہنا ہے اور اُن افواہوں پر بھی جو افراتفری پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔
آپریشن ضربِ عضب کے بعد نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سَربراہی میں آپریشن رَد الفسادشروع ہوا تو تجزیہ نگاروں کے ہاتھ ایک موضوع آگیا اور ایک دفعہ پھر چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھایا جانے لگا ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ آپریشن جنرل صاحب نے اپنی مرضی سے شروع کیا ، مقصد یہ کہ سیاسی و عسکری قیادت ایک صفحے پر نہیں حالانکہ وزیرِاعظم صاحب بَرملا کہہ چکے ہیں کہ اِس آپریشن کا فیصلہ وزیرِاعظم ہاؤس میں ہوا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ہمارے تجزیہ نگاروں کو سیاسی و عسکری قیادت کے مابین دوریاں ثابت کرنے کا اتنا شوق کیوں ہے ؟۔ آخر اِنہیں یہ احساس و ادراک کیوں نہیں کہ ہم ایک عشرے سے حالتِ جنگ میں ہیں اور جنگ بھی ایسی جو اندھی اور بے چہرہ ہے ، بزدِل دشمن چھپ کر وار کرتا ہے اور بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے سے دریغ بھی نہیں کرتا۔ اِن حالات میں تو پوری قوم کو متحد و یکسو ہونا چاہیے لیکن ہمارے ارسطوانہ ذہن رکھنے والے تجزیہ نگار پتہ نہیں قومی یکجہتی کے تاثر کو زائل کرنے کی کوششوں میں کیوں مگن رہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب ”شریفین (میاں نواز شریف،جنرل راحیل شریف)ایک صفحے پر تھے تب حکومت کی رضامندی سے جنرل راحیل شریف نے 15 جون 2014ء کو آپریشن ضربِ عضب شروع کیا اور اُس میں بے مثل کامیابیاں بھی حاصل کیں ۔ سویلین ہلاکتوں میں 80فیصد کمی ہوئی۔خودکش حملے اور بم دھماکے تقریباًختم ہو گئے۔اس صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خیال یہی تھا کہ دہشت گردوں اوردہشت گردی کا خاتمہ ہو چکا لیکن دشمن تو گھات میں تھا ۔ جونہی آپریشن میں کچھ کمی آئی تو اُسے متحد ہونے کا موقع مِل گیااور اُس نے اپنا وجود ثابت کرنے کے لیے پے دَر پے بم دھماکے اور خودکُش حملے کرنے شروع کر دیئے جس کے رَدِ عمل میں آپریشن رَد الفسادشروع ہوا کیونکہ جنرل راحیل شریف نے جو کام شروع کیا،اُسے آگے بڑھانا مقصود تھا۔
Terrorist
یہ آپریشن بلا امتیاز پورے ملک میں شروع کیا جا رہا ہے ۔اب اگر دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور کالعدم تنظیموں کے حامیوں تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کیا اسمبلیوں میں بیٹھے کچھ لوگ اس آپریشن کی راہ کی رکاوٹ نہیں ہوں گے؟کیا 2018ء کے انتخابات میں ووٹوں کے حصول کا لالچ بلا امتیاز آپریشن کی راہ میں حائل نہیں ہو گا؟اگر”بِلا امتیاز آپریشن” اُس کی روح کے مطابق روبہ عمل ہو گیا تو اُمیدِ واثق ہے کہ انشاء اللہ بہت جلد پاکستان سے نہ صرف دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا بلکہ دھرتی ماں امن کا گہوارا بھی بن جائے گی ۔ شرط مگر یہ ہے کہ ہم دنیا کے سامنے قومی و مِلی یکجہتی کا تاثر پیش کریں اور افواہوں پہ کان نہ دھریں۔ 23 فروری کو جس طرح گلبرگ میں بم دھماکے کی افواہ پھیلی اور پورے لاہور میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوا ، اُس کا تدارک اُتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دہشت گردی کا خاتمہ ۔ 23 فروری کو ہم لوگ اوکاڑہ کینٹ میں تھے جب ڈیفنس لاہور میں دھماکہ ہوا ۔ میری امریکہ سے پاکستان آئی ہوئی بیٹی ڈاکٹر سحر مظہر بھی ساتھ تھی جبکہ اُس کا میاں ، سعید اشرفی لاہور ہی میں تھا۔
بیٹی نے اُسی وقت اپنے میاں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے فون کیا لیکن بیل بجتی رہی اور کال اٹینڈ نہیں ہوئی۔ اُسی دَوران ٹی وی پر یہ خبر آنے لگی کہ گلبرگ کے حفیظ سنٹر کے پاس دھماکہ ہو گیا ہے۔ میری بیٹی کو چونکہ علم تھا کہ سعید نے حفیظ سنٹر جانا ہے اِس لیے وہ بُری طرح سے بَد حواس ہو گئی۔ اِسی بے چینی اور بَد حواسی میں اُس نے یکے بعد دیگرے کئی فون کیے لیکن دوسری طرف خاموشی ہی رہی جس پر اُس نے گھبرا کر رونا شروع کر دیا اور ہم سبھی اُسے تسلیاں دینے میں جُت گئے۔ لگ بھگ بیس منٹ بعد کال اٹینڈ ہوئی تو ہم سب کی جان میں جان آئی۔
سعید اُس وقت واقعی حفیظ سنٹر میں تھا ۔ اُس نے بتایا کہ وہ ابھی گاڑی پارک کرنے کی جگہ ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ کسی طرف سے آواز آئی کہ حفیظ سینٹر میں بم کی اطلاع ہے اِس لیے سنٹر خالی کروایا جا رہا ہے ۔ اِسی دوران بھگدڑ مچ گئی اور دوکاندار اپنی دوکانیں کھلی چھوڑ کر باہر کی طرف بھاگے ۔ پھرکسی نے شور مچا دیا کہ میکڈونلڈ کے پاس دھماکہ ہو گیا ہے ۔ تب افراتفری اور بھگدڑمیں مزید اضافہ ہو گیا ۔ سعید نے اپنی گاڑی وہاں سے نکالنے کی کوشش کی لیکن ہجوم کی وجہ سے سارے راستے بلاک ہو چکے تھے ۔ بعد از خرابیٔ بسیار وہ اِدھر اُدھر کی گلیوں سے ہوتا ہوا باہر نکلا ۔ اُسے بہت بعد میں یہ پتہ چلا کہ یہ سب افواہیں تھیں ۔ ایسی افواہوں کا تدارک ضروری ہے کیونکہ بھگدڑ کی وجہ سے لوگ زخمی بھی ہوتے ہیں اور سانحے بھی جنم لیتے ہیں۔
ہماری طرف سے دہشت گردوں کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ ہم اُن کی یزیدیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ وقت و ہمہ تن تیار ہیں،اور یقیناًہم ایسا کر بھی رہے ہیں۔ان خودکش حملوں سے ہمارے معمولاتِ زندگی میں معمولی سا بھی فرق نہیں آتا لیکن ہمیں افواہیں پھیلانے والے عناصر سے بھی ہوشیار رہنا ہو گا کیونکہ یہ کسی بھی صورت میں ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔