تحریر : سید کمال حسین شاہ دنیا اس وقت بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ان سے آگے بڑھنے کی ہم میں صلاحیت ہے ۔بس شرط یہ ہے ان کی ترقی کا راز جان لیں۔ چند اصول ہیں اور رویے ہیں جن سے ملک ترقی کرتے ہیں۔پہلا یہ کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو۔جو طاقت والا اور اختیار والا ہے اسے احتساب کا ڈر ہو۔قوم و ملک کی ترقی کا پر خلوص جذبہ ہو۔دوسری چیز سماجی طبقوں میں وحدتِ فکر اور وحدتِ عمل ہو۔یعنی قوم کے رویے اور ترجیحات ایک ہوں۔گوادر میں اقتصادی راہداری منصوبوں پر کام جاری ہے ، توقع ہے یہ منصوبے وقت پر مکمل ہوں گے ، بجلی کے منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔
چین نے بجلی کے بحران پر قابو پانے میں پاکستان کی بڑی مدد کی ہے ، 2018 تک بجلی کی ضروریات پوری کرلیں گے ۔ گوادر میں جاری منصوبوں میں چین کا بھی اتنا ہاتھ ہے جتنا پاکستان کا ہے ۔انہوں نے کہا کہ گوادرکو بین الاقوامی شہربنتا دیکھ کر خوشی محسوس ہورہی ہے ۔ لگتاہے یہ سڑکیں گوادر نہیں اسلام آباد کی ہیں، اس منصوبے سے نہ صرف پاکستان کو دنیا بھر میں اعلیٰ مقام ملے گا بلکہ ٹیکس کی مد میں ہونے والی آمدن پاکستان کی معیشت پر شاندار اثرات بھی ڈالے گی۔ پاکستان میں معاشی انقلاب برپا کرنے والا یہ منصوبہ نہ صرف ایک شاہراہ ریشم کو جنم دے گا جو تجارت کو محفوظ، آسان، اور مختصر بنائے گی، بلکہ اس کے ساتھ ہی گوادر کو ایک انتہائی اہم مقام میں تبدیل کر دے گا جس کی جستجو ترقی یافتہ ممالک کرتے ہیں۔پاکستان کی ترقی ،سالمیت اورخوشحالی کے ضامن سی پیک منصوبے کی تکمیل کیلئے قوم کا ہرفرد خواہ اس کی وابستگی کسی بھی سیاسی ، مذہبی جماعت سے ہو یا کسی بھی علاقے وزبان وقوم سے ہوکو چاہیے کہ مل کر ملک کی ترقی میں حائل رکاو?ٹوں کومشترکہ جدوجہدکرکے اس عظیم ترین منصوبے کوپایہ تکمیل تک پہنچاکرپاکستان کوترقی کے ناختم ہونے والے سفرپرگامزن کریں۔
پاکستان کوقدرتی طورملاجغرافیائی محل وقوعاس قدر اہمیت کاحامل ہے کہ پاکستان پوری دنیا کی تیل، گیس ،زراعت، صنعتی و معدنی پیدوار اور منڈیوں کے درمیان پل بن سکتاہے ۔اس قدرتی محل وقوع کی اہمیت اورافادیت کومدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اور چین نے مل کر”پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبہ“بنانے کافیصلہ کیاہے جوکاشغر سے شروع ہو کر گلگت۔ بلتستان اور خیبر پختونخواہ اور پھر بلوچستان سے گزرے گا۔واضح رہے کہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی منصوبہ ہے …چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سے روشن ہوئی امکانات کی وسیع دنیا ہمارے دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہی اس انفراسٹرکچر کو پھیلا کر روس کے شہر ماسکو، ہالینڈ کے شہر روٹرڈیم اوراٹلی کے شہر ونیس تک لے جانے کاارادہ ہے۔
ان منصوبوں کے لئے ایک مخصوص سڑک کے بجائے اس بیلٹ یاکوریڈور کو پہلے سے موجود زمینی راستوں یعنی سڑکوں اور پلوں کے ساتھ ساتھ جوڑاجائے گا۔ یوں چین، منگولیا،روس، وسطی چین اور مغربی ایشیا، انڈو چا ئنا کا علاقہ ، چائنا، پاکستان،بنگلہ دیش، چائنا، انڈیا اور میانمارکو آپس میں ملانے کی بنیاد رکھ دی جائے گی۔۔ اس منصوبے میں65پینسٹھ ممالک کی شمولیت متوقع ہے ۔ آبادی کے اعتبار سے دیکھیں تو ساڑھے چار ارب افراد ان منصوبوں سے مستفید ہوں گے ۔پاکستان کی حکومت‘ عوام‘ مسلح افواج اور قومی سلامتی کے ادارے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں متحد ہیں ۔بین الاقوامی اداروں کے مطابق سی پیک کے ذریعے 150ارب ڈالرکی سرمایہ کاری متوقع ہے ۔اس میگا منصوبے کے ذریعے رابطوں کو بڑھانے سے پاکستان کوتجارتی مواقع میسرہوں گے اوردنیا کی 70 فیصدسمندری تجارت پاکستان کی 2بڑی بندرگاہوں کراچی اور گوادر کے راستے ہو گی۔گوادر متحدہ عرب امارات، خلیجی ممالک، سعودی عرب اور ملحقہ خطوں کے ساتھ درآمدات اور برآمدات کا تیز ترین ذریعہ بن جائے گا۔
China-Pakistan Economic Corridor
سی پیک کے ذریعے پاکستان دنیا میں ایک مستحکم اقتصادی قوت کاحامل ملک بن کے ابھرے گا اسی وجہ سے پاکستان مخالف طاقتوں اور گروہوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں جوکہ پاکستان کو پھلتاپھولتا نہیں دیکھ سکتیں جبکہ سی پیک منصوبے پرسب سے زیادہ مخاصمت بھارت کوہے جس نے سی پیک منصوبے کی ابتداء سے ہی سازشوں کا جال بننا شروع کردیا تھا۔ بلو چستان میں بدامنی اورعلیحدگی پسند تحریکیں ، کنٹرول لائن پربلااشتعال فائرنگ،باڈرپرسرجیکل اسٹرانک کاڈھونگ رچانے سمیت دیگر ہتھکنڈیاس منصوبے کو سبوتاڑکرنے کی گھناو?نی سازش ہے ۔چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سے روشن ہوئی امکانات کی وسیع دنیا ہمارے دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہی۔بھارت اس منصوبے کوروکنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیارہے ۔مختلف صوبوں میں سی پیک کی مخالفت میں اٹھنے والی انتہائی خفیف آوازوں کے پیچھے بھی بھارت کامکروہ چہرانمایاں ہے …اس منصوبے کی تکمیل کے بعد امریکا کو اپنی سپر پاور کا سورج غروب ہوتا نظر آرہا ہے اور بھارت تو ہے ہی پاکستان کا ازلی دشمن، وہ پاکستان کی اتنی بڑی ترقی کو آسانی سے ہضم نہیں کرسکتا۔عسکری قیادت برملا اس بات کا اظہار کر چکی ہے کہ اس منصوبے کی طرف میلی آنکھ برداشت نہیں کی جائے گی۔
ہمیں اس منصوبے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شاندار موقع سے اپنی معاشی تقدیر بدل سکتے ہیں ۔ کیونکہ اس طرح کے مواقع بار بار دروازے پر دستک نہیں دیتے۔ چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے ۔ وہ اپنی تجارت کو فروغ دے کر سپر پاوربننے کی تیاری کر رہا ہے ، اور پاکستان اس کا ہم سفر ہے ۔ معاشی سرگرمیوں سے پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے اور پاکستان علاقائی تجارت کا مرکز بن سکتا ہے ۔ کسی بھی ملک و قوم کی تاریخ میں ایسے مواقع شاید ہی آتے ہیں جیسا شاندار موقع پاکستان کو ملا ہے چین نے اپنی معاشی پالیسی کے 4 اہداف مقرر کیے ہیں، جن میں ایشیاء اور یورپ میں رابطے میں اضافہ، ون بیلٹ ون روڈ کا قیام، آزادانہ تجارت کا فروغ، اور عوام کے باہمی رابطے شامل ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان ان چاروں اہداف پر پورا اترتا ہے ، جس کی وجہ سے چین، پاکستان میں دوسرے ممالک کی بہ نسبت سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہا ہے ۔ چین وہ واحد ملک ہے جس نے پاکستان کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کی، اور اب بھی بجلی کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے پاکستان اس منصوبے سے اربوں روپے کما سکتا ہے ۔ اس راہداری سے پاکستان میں خوشحالی کا دروازہ کھل جائے گا۔ روزگار کے مواقع در آئیں گے ، دفاع مستحکم ہو گااور اس سے جہاں چین تک نقل و حمل آسان ہو جائے گی وہیں پاکستانی مصنوعات شمال سے جنوب اور جنوب سے شمال تک بآسانی پہنچائی جاسکیں گے ۔ یہ مصنوعات شمال سے جنوب میں بحیرئہ عرب کے ذریعے دوسرے ممالک تک بھی بھیجی جا سکیں گی۔
اس راہداری کے قیام کے بعد بھارت کا خطے میں پھیلنا پھولنا کم ہو جائے گا۔ گوادر پورٹ کے قیام سے بھارتی معیشت پر منفی اثرات پڑیں گے اور اس سے بھارت کا دفاع بھی کمزور پڑ جائے گا۔ یہ پورٹ ایک ایسی جگہ قائم کی جارہی ہے جہاں یہ دنیا کی تیسری گہری ترین بندرگاہ ہو گی،سی پیک ایک عملی حقیقت بن گیا اور اس خطے کے لیے ایک روشن مستقبل کاپیش خیمہ۔سی پیک ایک ایسا ہی عظیم ترقی کا ذریعہ ہے جو ہمارے آنے والے دور کو خوشحال اور آسودہ بنا سکتا ہے ۔گوادر سے گلگت تک پورا ملک اسے اپنا روشن مستقبل سمجھتا ہے ۔کوئی بھی جماعت، وہ چاہے سیاسی ہو یا مذہبی،اس کی مخالف نہیں۔سی پیک کی کامیابی اور اس کے مفید اثرات سے استفادے کے لیے لازم ہے کہ پوری قوم یک سُو ہو جائے ۔بے جا اندیشوں اور بدگمانیوں کی جڑیں زیادہ پھیلنے نا دیں بلکہ آنے والے دور کے تقاضوں سے نمٹنے کے لیے خود کو تعلیم،ہنر اور موثّر صلاحیتوں کا حامل بنادیں۔ صرف موجودہ حکومت کا منصوبہ نہیں۔٢٠١٤ سے ٢٠٣٠ تک یہ منصوبہ جاری رہنے والا ہے ۔اس دوران پاکستان میں تین سے زیادہ حکومتیں قائم ہونے والی ہیں۔اس لیے اسے محض ایک پارٹی کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا منصوبہ سمجھنا چاہئے …سی پیک عالمی طاقتوں کے لیے ایک نئی سرد جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے ۔چائنا کی ترقی اور دنیا میں اس کے کردار سے بڑی بڑی طاقتیں خائف ہیں۔اس تناظرمیں سی پیک محض پاک چائنا تک محدود ایک اقتصادی منصوبہ نہیں …کئی ملکوں کے لئے براہ راست ایک چیلنج ہے ۔ان کے مفادات پہ ایک کاری وار ہے ۔ان ملکوں میں انڈیا کے علاوہ بھی طاقتیں ہیں۔اس خطے کی بھی،سات سمندر پار کی بھی۔ایسے میں سی پیک آنے والے وقتوں میں دنیا کی معیشت اور سیاست پہ زبردست اثرات ڈالنے والا ہے۔
چائنا ایک مضبوط اور سنجیدہ ملک ہے ۔اپنا فائدہ دیکھے بغیر کہیں مداخلت نہیں کرتا۔بڑی دور اندیشی سے اور تنازعات سے بچ بچا کے اپنا کام کرتا ہے ۔سی پیک کے ذریعے ایک طرح سے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان اس کے لیے اہم ملک ہے ۔دنیا جتنا بھی اس کے خلاف سوچے ،وہ پاکستان پر اعتماد کرتا ہے …سی پیک خود چائنا کے لیے سونے کا انڈا دینے والی مرغی کی طرح ہے ۔یہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی اکنامک موومنٹ ہے ۔اوردنیا کی سب سے بڑی آبادی کا یہ ملک،دنیا کی سب سے بڑی اکنامک پاور کے طور پر ابھر رہا ہے ۔ اس کی صنعتیں ہر وقت مصنوعات اگلتی رہتی ہیں۔افریقہ سے لے کر امریکہ تک،ایشیا سے لے کر یورپ تک ہر چھوٹی سے لے کر بڑی مارکیٹ تک اس کی مصنوعات چھائی ہوئی ہیں…پاکستان کے لیے بھی سی پیک واقعی ایک گیم چینجر ہے …سی پیک سے پاکستان کو سو بلین ڈالر سالانہ کی آمدنی ہوگی۔ملک میں توانائی کے جو مسائل ہمیشہ موجود رہے ہیں ان کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ شاہراہوں کی صورت بدل سکتی ہے ۔سیاحت کے شعبے میں ترقی ہوسکتی ہے ۔ہوٹل انڈسٹری میں نئی جان پڑسکتی ہے ۔پاکستان اور چین میں تعلیمی،فنی اور سماجی شعبوں میں تعاون بڑھ سکتا ہے ۔اور اس میں سراسر ہمارا ہی کا فائدہ ہوگا۔کیونکہ چائنا ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔زندگی کے ہر شعبے میں یہ ہم سے آگے ہے ۔اس لیے اثر پزیری ہماری زیادہ ہوگی…ملکوں کی تاریخ میں کچھ منصوبے ایسے ہوتے ہیں جو ملکوں کی قسمت بدل دیتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے تکمیل کے بعد نہ صرف دونوں ممالک کی اقتصادی خوشحالی کی ضمانت ثابت ہوں گے بلکہ بہتر جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان خطے میں مضبوط معاشی طاقت کی حیثیت سے ابھرے گا۔