صحت کی سہولیات عوام کا بنیادی حق

Patient

Patient

تحریر : مہر بشارت صدیقی
وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے صحت کے شعبہ میں کی جانے والی اصلاحات کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ہیلتھ ریفارمز روڈمیپ پر موثر عملدآمد سے صحت عامہ کی سہولتوں میں بہتری لانے میں مدد مل رہی ہے۔عوام کو معیاری طبی سہولتوں کی فراہمی کیلئے انقلاب آفریں اقدامات کئے گئے ہیں۔امیونائزیشن کوریج کو بہتر بنانے کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کے بھی حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ امیونائزیشن کوریج کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے تسلسل کے ساتھ اقدامات کو جاری رکھنا ہے۔جناب وزیر اعلیٰ صاحب بند کمرے میں بیٹھ کر کاغذی رپورٹس دیکھ کر فیصلے کر لیتے ہیں باہر نکلیں تو انہیں اندازہ ہو کہ عوام صحت کے لئے کس مصیبت میں پھنسی ہوئی ہے۔ اپوزیشن لیڈر میاں محمود الر شید نے چند دن قبل صحت کے حوالہ سے وائیٹ پیپر جاری کیا جس میںانہوں نے عالمی ادارہ صحت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ1000افراد کی آبادی کیلئے کم ازکم ایک ڈاکٹر،200افراد کیلئے ایک ڈینٹسٹ ہونا چاہئے جبکہ5مریضوں کی دیکھ بال کیلئے ایک نرس کا ہونا ضروری ہے لیکن بدلا ہے پنجاب کا نعرہ بلند کرنیوالے نا اہل حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی بدولت پنجاب میں2173افراد کیلئے ایک ڈاکٹر،4000افراد کیلئے ایک ڈینٹیسٹ ہے۔ صحت کا شعبہ کسی بھی ملک کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کو علاج معالجہ کی بہترین سہولیات کی موثرفراہمی کو یقینی بنائے لیکن پاکستان کے اہم اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں صحت کی صورتحال انتہائی نا گفتہ بہ ہے۔ یہاں حکمران 200ارب روپے اورنج ٹرین پر تو خرچ کرسکتے ہیں لیکن انسانی جانوں اور صوبے کے غریب عوام کی صحت پر کوئی توجہ ہی نہیں۔ یہاں ہسپتالوں میں غریب کو ملنی والی مفت ادویات آئے روز نا پید رہتی ہیں مارکیٹ میں گزشتہ برس اسکی قیمتوں میں200فیصد اضافہ ہوا۔

عالمی ادارہ صحت نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ پنجاب میں فلو سے لیکر کینسر تک کی40فیصد ادویات جعلی فروخت ہو رہی ہیں جبکہ ممنوع ادویہ، نشہ آور ٹیکہ جات میں مارکیٹ میں با آسانی دستیاب ہوتے ہیں۔ پنجاب میں حکومت کی ناقص حکمت عملی اور غیر سنجیدہ رویے کے باعث صحت کی صورتحال سنگین اور مختلف بیماریوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، پنجاب میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد34لاکھ ہو گئی ہے اور اس میں ہر سال بتدریج2لاکھ اضافہ ہو رہا ہے جبکہ صوبے میں گندا پانی پی کر ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد70لاکھ سے زائد ہو گئی ہے اور اس میں سالانہ تین لاکھ سے زائد کا اصافہ ہو رہا ہے۔چلڈرن ہسپتال لاہور میں آپریشن کے منتظر بچوں کی تعداد11ہزار ہو گئی اور فوری آپریشن کے مریض بچوں کو 8سال سے زائد جبکہ پی آئی سی کی ایمرجنسی میں آنے والے دل کے مریضوں کو انجیو گرافی کیلئے7ماہ تک اور بائی پاس کیلئے دو سال تک کا وقت دیا جا رہا ہے۔ پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں ہر 100میں سے صرف2 افرادکو مفت ادویات مل رہی ہیں،ایشیاء کے سب سے بڑے ہسپتال میو میں جہاں روزانہ2ہزار سے زائد مریض آتے ہیں وہاں ایم آر آئی مشین تک نہیں۔پنجاب میں2450بنیادی مراکز صحت میں سے50فیصد سے زائد غیر فعال ہیں یہاں ڈاکٹرز اور ادویہ کی شدید قلت ہے۔صوبہ پنجاب میں تریسٹھ فیصد بنیادی مراکز صحت سہولیات سے محروم ہیں ۔زیادہ تر مراکز میں بجلی ، پانی اور ایمرجنسی آلات کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے عوام کو شدید مسائل کا سامنا ہے ، مراکز میں طبی آلات کے فقدان کی وجہ سے علاج کیلئے آنے والے مریضوں اور ان کے لواحقین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب کے متعدد بنیادی مراکز کو کوئی فنڈ دیا گیا نہ ہی ان میں سے 63 فیصد مراکز میں بجلی ، پانی ، واش رومز ، ایمرجنسی لات کی سہولت بھی موجود نہیں ، 45 فیصد مراکز ایسے ہیں جن میں بجلی ، پانی ، واش رومز کے فقدان کے ساتھ ساتھ ایمرجنسی آلات اور ڈیلیوری لائٹس بھی موجود نہیں ہیں ، 68 فیصد مراکز ایسے ہیں جن میں صاف پانی ہی نہیں ، پچاس فیصد مراکز صحت ایسے ہیں جن میں بیک اپ پاور غائب ہے ، 30 سے 40 فیصد پنکھے بھی کام نہیں کر رہے جبکہ 40 فیصد کے قریب مراکز ایسے بھی ہیں جہاں رنگ و روغن کا کام بھی نہیں کروایا گیا۔ پنجاب میں دوران زچگی ایک لاکھ میں سے115 خواتین ہلاک ہو جاتی ہیں جو انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ مالی سال2015ـ16میں ماں اور بچے کو کو بہتر سہولتوں کی فراہمی کیلئے آئی آر ایم این سی ایچ پروگرام کیلئے 10ارب اور سپشلائزڈ ایجوکیشن ہیلتھ کیئر سسٹم کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے24ارب50 کروڑ روپے مختص تھے، ملتان، فیصل آباد ، راولپنڈی اور لاہور کے ہسپتالوں میں ری ویمپلنگ کیلئے 2ارب رکھے گئے تھے مگر دعوے صرف تقریبات اور تقریروں میں داغے گئے اور کارکردگی صفر رہی۔5ارب20کروڑ تمام ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز اور تحصیل ہسپتالوں کی تزئین و آرائش پر خرچ ہونا تھے جو تاحال نہ ہو سکے۔

Shahbaz Sharif Visit Hospital

Shahbaz Sharif Visit Hospital

حکومت کی سنجیدگی کا عالم یہ رہا کہ صوبے میں چار سال تک صحت کا وزیر ہی مقرر نہیں کیا گیا اب آخری سال میں ان کو یاد آیا کہ صحت کا وزیر بھی ہونا چاہئے یہی وجہ تھی2016میں20کروڑ سے اپ گریڈ کی جانے والی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی بھی کارکردگی نہ دکھا سکی۔ میو ہسپتال کا سرجیکل ٹاور ہو یاچلڈرن ہسپتال کا بون میرو ٹرانسپلانٹ، جناح ہسپتال کا برن یونٹ ہو یا جنرل ہسپتال کا انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسزکوئی بھی مکمل تعمیر یا فعال نہ ہو سکا۔ حکومت پورا سال اخبارات میں دیو ہیکل اشتہارات تک محدود رہی جبکہ انسانیت ہسپتالوں کی راہ داریوں میں سسکتی رہی۔ حکومت نے انسان کو سڑکوں اور پلوں پر ترجیح نہ دی تو حالات مزید سنگین ہو جائیں گے۔پاکستان میں صرف 4 سرکاری ہسپتال ایسے جو عالمی درجہ بندی میں شامل ہیں۔ اسلام آ باد کے پمز ہسپتال کا درجہ پاکستان میں تو پہلے نمبر پر ہے لیکن دنیا میں 5 ہزارنوسو 11ویں نمبر پر ہے،دوسرے نمنر پرلاہور کا جناح ہسپتال جبکہ سروسزہسپتال تیسرے نمبر پر ہے۔ایشیا کے ٹاپ 20ہسپتالوں میں 19بھارت کے ہیں جبکہ 1 ہسپتال بنگلہ دیش کا ہے۔پاکستان صحت کے شبہ میں بدانتظامی میں دنیا کے190ممالک میں سے 122ویں نمبرپرسرفہرست ہے۔دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں پاکستان 5911واں نمبر پر ہے۔

پاکستان کے 350چھوٹے بڑے ہسپتالون میں بیڈز کی تعداد صرف 21ہزار کے قریب ہے۔ پاکستان میں ہسپتالوں کی خستہ حالت کے باعث غریب عوام تک علاج کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہسپتالوں میں بستروں کی کمی کے باعث عام عوام تک بہترین علاج کی سہولیات میسر نہیں جبکہ ہسپتالوں میں استعمال شدہ سرینجوں کے استعمال کے باعث مزید بیماریاں پھیلتی ہیں۔ استعمال شدہ سرینج 20سے 50 روپے میں فروخت کردی جاتی ہے۔پرائیویٹ علاج غریب عوام کی پہنچ سے انتہائی دور ہونے کی بدولت غریب آدمی علاج سے محروم رہتا ہے۔ آئی سی یو میں بستروں کی کمی کے باعث مریض جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ہسپتالوں میں ادویات کی کمی کی بناء پر غریب عوام کو علاج کے لیے مہنگے داموں ادویات خریدنی پڑتی ہیں جس کے باعث بہت سے لوگ علاج سے محروم ہوجاتے ہیں۔پرائیویٹ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی فیسیں اتنی زیادہوتی ہیں کہ غریب عوام وہاںسے علاج نہیں کروا سکتے اور اگر کسی کی فیس کم ہوتو وہ ایسی دوائیاں لکھ کر دیں گے جو انہی کے میڈیکل سٹور سے ملتی ہیں ،باقی کسی بھی میڈیکل سٹور سے وہ دوائی نہیں ملے گی۔بخار کی دوائی کی قیمت بھی ہزاروں روپے ہو جاتی ہے۔جس کی وجہ سے غریب علاج کروانے کی بجائے خود کشی کو ترجیح دیتے ہیں۔

اگر پرائیوٹ ہسپتالوں سے ٹیسٹ کروانا پڑیں تو ہر لیبارٹری کی الگ رپورٹ آئے گی۔سرکاری طور پر بھی میڈیکل کے شعبے میں سیکنڈل آرہے ہیں۔ہسپتالون میں جگہ نہیں مریضوں کو فرش پر لٹا کر ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو جس طرح ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔معمولی علاج اور ٹیسٹ کے لئے تاریخوں پر تاریخیں دی جاتی ہیں اور پیسے الگ بٹورے جاتے ہیں۔مفت دوائی ملنا تو سرکاری ہسپتالوں سے ایک خواب بن گیا ہے۔صحت کے شعبہ میں ترقی کیے بغیر کوئی بھی ملک ترقی کی منازل طے نہیں کر پاتا جبکہ علاج تک رسائی کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے۔خادم اعلیٰ صحت کے شعبے پر بھی توجہ دیں اور عوام کو بنیادی حق دیں۔

Mehr Basharat Siddiqi

Mehr Basharat Siddiqi

تحریر : مہر بشارت صدیقی