تحریر : سراج احمد تنولی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ذولفقار علی بھٹو تیسری دنیا کے ایک ایسے طلسماتی لیڈر تھے جنہوں نے پھونک مار کر ”اسٹیٹس کو” کے قلعے کی دیورایں ڈھا دیں، جو چلے تو سیل رواں ثابت ہوئے اور رکے تو کوہ گراں بن گئے۔ ذولفقار علی بھٹونے اسلامی بم سے لے کر اسلامی کانفرنس تک ایسے انقلابی اقدامات کیے جنہوں نے یورپ اور امریکہ کی انا کے بت ہلا دیے ۔یحیٰی بختیار ذولفقار علی بھٹو کے وکیل تھے جو آخری دم تک بھٹو کا کیس لرتے رہے۔
جب جیالے ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی اور کفن دفن کے بعد ان کی آرام گاہ پر تشریف لائے تو وہاں پر یحیٰی بختیار بھی موجود تھے ،انہیں دیکھتے ہیں تمام جیالے ان کے اردگرد جمع ہوگئے اور مختلف سوالات کی بوچھاڑ کر دی ،ایک نوجوان آگے بڑھا اور یحیٰی بختیار سے پوچھا ،آپ پھانسی سے پہلے ذولفقار علی بھٹو سے ملے تھے ہمارے لیڈر نے آخری ملاقات میں آپ سے کیا کہا تھا؟؟ یہ سوال سن کر یحیٰی بختیار کی آنکھیں نم ہوگئیں اور انہوں نے درد بھری آوازمیں جواب دیا،بھٹوصاحب نے کہا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میری قوم کو بتا دینا کہ ”بزدل قوم کے بہادر لیڈروں کا یہی انجام ہوتاہے ”یہ جواب سن کر مجمع دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔۔۔۔
ہم ذولفقار علی بھٹو کی ذات پر اعتراضات کر سکتے ہیں ۔انہیں ایوب خان کی معاشی اصلاحات کا قاتل بھی کہا جا سکتا ہے ،ہم انہیں مشرقی پاکستان کے سانحے کا ملزم بھی قرار دے سکتے ہیں ، ہم انہیں 1976 ء کے دھاندلی کا ذمہ دار بھی ٹھہرا سکتے ہیں لیکن ان تمام الزامات کے باوجود ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک ناقابل فراموش لیڈر تھے ۔ذولفقار علی بھٹو کی زندگی کا جائزہ لیں تو وہ ایک سپر نیچرل ہیرو کی طرح دکھائی دیتے ہیں ۔عالمی طاقتوں نے انہیں اسلامی ممالک پر مبنی تھرڈ ولڈ بلاک اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی سزا دی تھی۔ذولفقار علی بھٹو کو جسمانی طور پر ختم کر نے کی بھی سازش کی گئی اوریوں تیسری دنیا کے عظیم لیڈر کو جج ، جرنیل گٹھ جوڑ کے ذریعے پھانسی دی گئی ۔اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نہ صرف سندھ میں بلکہ پورے پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کے نام پر ووٹ لیتی رہی اور ایک مشہور زمانہ نعرہ لگاتی رہی ”آج بھی بھٹو زندہ ہے کل بھی بھٹو زندہ تھا” مگر اب بھٹو کو مرنا ہوگا کیونکہ ذولفقار علی بھٹو کے نام پر ووٹ لینے والی پاکستان پیپلز پارٹی اب ناکام ہو چکی ہے ۔روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ کے بڑے بڑے نعرے لگانے والی یہ پارٹی اب ناکام ہو چکی ہے۔
گزشتہ دنوں سیہون شریف کے دھماکے میں زخمی تڑپتے، بلکتے ،خون کے آنسوں روتے ہوئے شہید ہو گئے ۔98 افراد اس حادثے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور تقریباََ 384 افراد زخمی ہوئے ۔سیہون شریف سے ہسپتال 158 کلو میٹر دور تھا ۔ زخمی افراد تڑپتے رہے کیونکہ انہیں ہسپتال پہنچانے کے لیے محض دو ایمبولینس تھیں سندھ حکومت کے پاس ائیر ایمبولینس اور رات میں پرواز کرنے والے ہیلی کاپٹر تو دور کی بات ،مناسب تعداد میں ایمبولینسز بھی نہ تھیں ۔جبکہ دوسری طرف وزراء اور ان کی فیملی کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں موجود ہیں۔حال ہی میں ڈپٹی اسپیکر کے گھر کے لیے وزیر اعلی سندھ نے ایک کروڑ کی منظور ی دی ۔ذولفقار علی بھٹو کے مزار کی تعمیر اور دیکھ بال سندھ حکومت عوام کے پیسوں سے کرتی ہے جبکہ اسی مزار کے چند قدم باہر جیالوں اور عوام کا حال بد سے بدتر ہے ۔پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔پبلک مقامات پر سیکیورٹی کے لیے نفری نہیں ہے۔
Sindh Government
وزراء ، مشراء اور سیاست دانوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے ہمہ وقت سرکاری گارڈ اور وسائل موجود ہیں جبکہ غریب کی بیٹی دو جوڑے نہ ہونے کے باعث گھر میں بیٹھی ہے جبکہ سیاست دانوں کے بچوں کی شادیاں دبئی ، سنگاپور اور تھائی لینڈ میں ہوتی ہیں ۔ساری پولیس اور ادارے تو صرف حکمرانوں اورا ن کے حواریوں کو تحفظ دینے میں مصروف ہیں عوام کا محافظ کوئی نہیں ہے ۔جو مسکین سہون شریف میں زخمی یا شہید ہوئے ہیں ان کون پوچھے گا ،وہ تو کیڑے مکوڑے تھے جو وہاں کا لنگر کھا کر گزارا کیا کرتے تھے ۔میرے خیال میںاب ”بھٹو زندہ ہے ” کا نعرہ لگانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔ اب بھٹو کو مرنا ہوگا۔ہمیں اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہوگا۔پاکستان کے عوام کے امن و سکون اور تحفظ کے لیے سیاسی نعروں سے پیچھے ہٹنا ہوگاورنہ ہم اسی طرح اپنے بچوں اور پاکستانی بھائیوں کی لاشوں پر بین کرتے رہیں گے۔۔۔