کراچی : جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنما اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ گستاخ رسول کی ہلاکت کا فیصلہ قرآن و سنت ، نبی اکرمۖ، صحابہ کرام، تبہ تابعین، آئمہ دین، اولیاء اللہ اور ہر دور کے امام و عالم سے ثابت ہے،جو گستاخ رسول کی گستاخی میں شک یا اسے بے قصور کہنے کے لئے اس کی حمایت کرے گا وہ شخص خود بھی گستاخی کے ذمرے میں شمار کیا جائے گا، ناموس رسالتۖ ایک مومن مسلمان کے لئے ریڈ لائن ہے،جو بھی اس سرخ لکیر کو پھلانگنے کی کوشش کرے گا، امت مصطفیۖ کے غیر مند مسلمان اس گستاخ کا فیصلہ خود کرلیں گے، پاکستان ایک جمہوری و پارلیمانی ملک ہے۔
جہاں قانون کی بالادستی ہر صورت بالاتر رہنی چاہیے،مگر قانون خود اگر کمزور ی کا نمونہ پیش کرے گا تو قوم اپنی امیدیں کس سے لگائے گی؟ناموس رسالتۖ کا معاملہ عقائد، نظریات اور جذبات سے تعلق رکھتا ہے، اس بارے میں اگر شریعت کی رو سے فیصلے نہ کیے گئے تو پھر فرط جذبات سے کوئی بھی مسلمان کسی قسم کا قدم اٹھا سکتا ہے،یوم ناموس رسالتۖ اور عرس مقدس غازی ممتاز حسین قادری کے حوالے سے منعقدہ اعلیٰ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنما اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ غازی ملک ممتاز حسین قادری شہید کی پھانسی عدالتی قتل تھا،ہم نے بار بار مطالبہ کیا تھا کہ شہید کا کیس شرعی عدالت میں منتقل کیا جائے،قرار دار مقاصدر اور آئین پاکستان میں یہ بات بلکل واضح تھی کہ ملک کا قانون قرآن و سنت کے عین مطابق ہوگا،بیرونی دبائو سے جو فیصلہ کیا گیا اس کے دور رس منفی نتائج ابھی آنے باقی ہیں،جمعیت علماء پاکستان پہلے دن سے غازی ممتاز کے اقدام کا دفاع شرعی بنیادوں پر کر رہی تھی اور آئندہ بھی کرتی رہے گی،پارلیمنٹ میں موجود ہر جماعت نے ناموس رسالتۖ کے معاملے پر غازی ممتاز قادری کے اقدام کو شدت پسندی سے جوڑنے کی کوشش کی،ناموس رسالتۖ کے تحفظ کے لئے کسی حدود و قیود کا تعین کرنا نا ممکن ہے۔
سلمان تاثیر مسلسل گستاخی کرتا رہا مگر پارلیمنٹ اور عدلیہ خاموش رہی، پچاس روپے پر سو موٹو لیا گیا مگر کائنات کے والی و وارث سید المرسلین ۖ کی گستاخی کرنے پر سو موٹ نہیں لیا جاسکا، پارلیمنٹ میں کسی خاتون رکن کی بے عزتی کی جاتی ہے تو فور ا َ تمام جماعتیں اس کی مخالفت کرتی ہیں مگر ناموس رسالتۖ پر حملہ کیا گیا تو ایوان میں موجود کوئی شخص کچھ بھی نہیں کہہ سکا،اگر کوئی شخص گستاخی رسالت کو مرتکب ہوتا ہے تو پھر اسے چاہے کوئی بھی استثنا حا صل ہو، وہ قانون شرعیت کی گرفت سے بچ نہیں سکتا ہے،اگر صحیح وقت پر عدالت اور ایوان ایکشن لیتا تو پھر کوئی بھی عاشق رسولانتہائی اقدام کی طرف قدم نہیںبڑھاتا، بلاگرز کا مسئلہ بھی اسی سمت میں جا رہا ہے،ابھی تک کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے، اب اگر کوئی عاشق رسول کسی قسم کا رد عمل دے گا تو اسے لبرل وسیکولر انتہا پسند شدت پسندی سے جوڑنے کی کوشش کریں گے،شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ مقام مصطفیۖ کا تحفظ ہمارے منشور و دستور کا بنیادی جز ہے،ناموس رسالتۖ کے معاملے پر مصلحت و مفاہمت کرنے والے کا دین سے تعلق نہیں ہوسکتا ہے،آج پہلی مارچ 2017 ملک بھر میں جمعیت علماء پاکستان و مرکزی جماعت اہل سنت ،انجمن طلبہ اسلام، فدایان ختم نبوتۖ، انجمن نوجوانان اسلام کے تحت ملک بھر کے ہر ضلع، تحصیل اور شاخ میں یوم تحفظ ناموس رسالتۖ اور عرس مقدس غازی ممتاز حسین قادری و منایا جائے گا۔اہل سنت کی جملہ تمام جماعتیں ہر سال پہلی مارچ کے دن غازی ممتاز حسین قادری کا عرس منائیں گی۔