تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری بالآخر پنجاب میں بھی رینجرز کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اختیارات مل گئے ہیں۔”ردالفساد”کے نام سے دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے زبردست تحریک شروع ہوگئی ہے پوری قوم کی دعائیں ا ن کے ساتھ ہیں کہ خدائے عزو جل دہشت گردی کے ناسور سے ملک کو پاک کرنے میں افواج پاکستان کو کامیابی عطا فرمائیں۔یہ اختیارات سونپے جانے میں کیا رکاوٹ تھی؟چلئے دیر آئید درست آئیدکی طرح اس کو غنیمت جاننا چاہیے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گرد حتیٰ کہ خود کش بمبار تک بن جانا اور اپنی جان و جسم کے پر خچے اڑ ا ڈالنا کیوں اور کیسے ایک علیحدہ نظریہ بن چکا۔ذرا پیچھے جھانکیے تو 9/11کے بعد جب امریکنوں کو ایک فون کال پر پاکستانی اڈوں سے ہمسایہ اسلامی ملک افغانستان پر حملوں کی اجازت دی گئی تھی تو انہوں نے پر امن طور پر چلتی ہوئی افغانستان کی طالبان حکومت کو تہس نہس کر ڈالا اور تقریباً پاکستان سے 72 ہزار حملے افغانستان پر کیے ایٹمی پاکستان پر قبضہ کرنے والا ڈکٹیٹر خود کو کمانڈو کہتا تھا مگر ایک کال پرہی چت لیٹ گیا۔
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ آج تک کبھی مسلمانوں نے سیکولر ،لادین ،سامراجی طاقتوں کواپنی سرزمین کو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف کاروائیوں کے لیے پیش نہیں کیا۔ پھر ہمارے کمانڈو کا یہ فیصلہ بغیر کسی مشورہ کے تھاحتیٰ کہ کور کمانڈرز سے بھی مشاورت نہ کی گئی۔پھر امریکنوں کی نشاندہی پر اپنے مسلمان بھائیوں کو خواہ وہ کسی مقدمہ میں ملوث تھے یا نہ سامراجیوں کو بیچنے کا عمل جاری کردیا کئی مطلوبہ افراد کو امریکہ کے حوالے کرکے کروڑوں ڈالر کمائے وہ کن بینکوں میں جمع ہوئے ؟ایسے رازوں پر کب پردہ اٹھے گا؟ ہمارے لیے یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جب ہماری سر زمین بے دین سیکولر سامراجی قوتوں نے مسلم ملک پر حملوں کے لیے استعمال کی ہوگی تو افغانی کیا اس کے بدلے میں ہم پر پھول برسائیں گے ؟ انڈیا چالاک لومڑی کی طرح یہ سب کچھ دیکھتا رہااور پھر افغانیوں سے ہمدردیوں کے روپ میں گھس کر وہاں اپنے فوجی اڈے قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہمارے حکمران نے تو اپنے ہی ملک میں ڈرون حملوں کی اجازت بھی دے ڈالی تھی۔جس سے ہماری افغانی سرحدی پٹی پر موجود ہمارے مسلمان بھائیوں پر حملے شروع ہوگئے جو کہ دہشت گردوں کی سرکوبی کے نام پر کیے جاتے تھے مگر معصوم مدارس کے طالب علم بچے بھی درجنوں کی تعداد میں شہید کرڈالے گئے اور مطلوبہ دہشت گردوں کی تلاش میں معصوم شہری بھی ہلاک ہو گئے۔
Terrorism
دہشت گرد کم اور معصوم شہری زیادہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جس سے رد عمل پیدا ہو جا نا فطری تھاکہ یہ کبھی ممکن ہی نہیں اور عقل سلیم بھی تسلیم نہیں کرتی کہ پورے فاٹا کی آبادی دہشت گردی میں ملوث ہو کہ پوری آبادیاں مکمل دہشت گرد نہیں بن سکتیںیہی افغانی پٹھان تھے جو ہمارے افغان بارڈر پر ہمارے محافظ ہوتے تھے قبل ازیں ضیاء الحق کی امریکہ کی شہہ پر افغانستان میں موجود روسی افواج پر چڑھائی بھی ہمارے لیے قطعاً ممد و معاون ثابت نہ ہوسکی ۔پھر ہم نے لاکھو ں افغان بھائیوںکو اپنے ملک میں بطور مہاجر پناہ دی۔ان کا بھی ہمارا نہ بن سکنا خارجہ پالیسی کی ناکامی ہی قرار دیا جائے گا ۔ موجودہ حکومت کا تو کوئی وزیر خارجہ تک نہ ہے ۔بھارتی بڑھکوں کا مقابلہ اور سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ نہیں بلکہ عملاً اعلان جنگ کو روکنے اور ہندو مہاشوں کے دنیا بھرمیں پراپیگنڈوں کا توڑ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے ۔پرویز مشرف کے تولال مسجد پر زہریلی گیسوں سے ہزاروں حفاظ بچیوں کو بھسم کرکے ان کی ہڈیاں گوشت تک گٹروں میں بہا ڈالنے سے بھی رد عمل پیدا ہوا جو خود کش بمبار بن جانے کی بھی ایک وجہ ہو سکتا ہے۔کاش کہ اب رد الفساد کے نام پر رینجرز ان اصل دہشت گردوں کے خلاف موثر کاروائی کرنے میں کامیاب ہوجائیں جنہوں نے ملک بھر میں فساد برپا کر رکھا ہے اور ہماری متبرک مساجد،مزار ، مدارس و سکول تک محفوظ نہ ہیںاسے آخری اور فائنل رائونڈ بھی سمجھیں اگر خدا نخواستہ خدا نخواستہ میرے منہ میں خاک اگر یہ مشن ناکام ہو گیا تو ہمارا کوئی پرسان حال تک بھی نہ ہو گاکہ
تو نے تو دیکھی ہی نہیں گرمی َ رخسار حیاء ہم نے اس آگ میں جلتے ہوئے دل دیکھے ہیں
ہمیں انتہائی غورو غوض اور سوچ بچار کرکے دو سال سے جاری ضرب عضب کے مطلوبہ نتائج بھی سامنے رکھنے چاہیں جس سے دہشت گردی کی سرکوبی تو کی گئی مگر مکمل کامیابی حاصل کرنے میں کیا رکاوٹیں رہیں ؟کیا موجودہ حکمرانوں کی طرف سے ہی کوئی لیت و لعل تو نہیں رہا ؟کہیںدہشت گردوں کے سہولت کار ہماری ہی صفو ں میں موجود تو نہیں؟لادین بیورو کریٹ بھی ملک کے لیے ہمیشہ نقصان دہ ہی ثابت ہو تے رہے ہیں انہی کے مشوروں سے ہم مشرقی پاکستان کھو بیٹھے۔ تیز رفتارفوجی عدالتوں نے بھی موثر کردار ادا کیاجس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ ان کے ختم ہوتے ہی زیر زمین گھسے ہوئے تخریب کاروں نے اپنی سرگرمیاں تیز تر کر ڈالیں اور ایک ہفتہ میں دس دس حملے شروع کر ڈالے اب ذرا سوچیے کہ اب فوجی عدالتوں کو دو بارہ کردار ادا کرنے کے لیے اجازت دینے کے عمل پرہمارے نام نہاد سیاستدانوں کا اتفاق رائے کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف کیوں بنتا جا رہا ہے۔
دراصل انہوں نے اگلے سال عام انتخابات میں حصہ لینا ہے اس لیے عوام شرح صدر سے یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا ٹال مٹول لازماً دہشت گردقوتوں کے ووٹ حاصل کرنے کی وجہ سے ہی ہے۔ان کے ایسے ہی مذموم کرداروں کی وجہ سے خدائے عزوجل اللہ اکبر اللہ اکبر اور سیدی مرشدی یا نبی یانبی کے نعرے جپتے غیور مسلمانوں کی تحریک کو کامیابی عطا فرمائیں گے تا کہ ایسے آئندہ حکمران مہنگائی بیروزگاری غربت دہشت گردی جیسے ناسوروں کے خاتمے کے سبب بن سکیں۔وما علینا الاالبلاغ